国立広島・長崎原爆死没者追悼平和祈念館 平和情報ネットワーク GLOBAL NETWORK JapaneaseEnglish
 
Select a language / اردو (Urdu・ウルドゥ語) / Memoirs (ایٹمی بم کے متاثرین کی یادداشتیں پڑھیں)
 
موت سے بال بال بچ گیا 
شما ساکی جیرو(SHIMASAKI Jiro) 
جنس مرد  بمباری کے وقت عمر 14 
تحریر کا سال 2007 
بمباری کے وقت محل وقوع ہیروشیما 
Hall site ہیروشیما قومی امن یادگاری ہال برائے متاثرین ایٹمی بمباری 
6 اگست کی صورتحال
میں ان دنوں طلبہ لازمی مزدوری نظام کے حوالے سے منامی کانون ماچی میں واقع متسوبشی  ہیوی انڈسٹریز کےہیروشیما مشینری ورکس کارخانےجایا کرتاتھا ۔  میں سائی جو  سے ریل گاڑی میں سوار ہوتا، پھر شہر کی الیکٹرک ٹرین کے ذریعہ ایک گھنٹے سے زیادہ وقت میں اپنے کام پر پہنچتا تھا۔  پانچ بہن بھائیوں میں میرا چوتھا نمبر تھا۔مجھ سے بڑے ایک بھائی اور دو بہنیں تھیں ، جبکہ ایک چھوٹی بہن تھی ۔ میرا بڑا بھائی کیوشو میں فوجی خدمات انجام دے رہا تھا۔

جب میں  ہیروشیما صوبائی حکومت کے ہیروشیما نمبر دو مڈل  اسکول میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا،  تب سے  تمام کلاسیں معطل کردی گئی تھیں اور میرا  ایک کے بعد دوسرے کارخانے میں تبادلہ کیا جاتا رہا۔1944کے اواخر سے میں  متسوبشی کانون ماچی کارخانے جانا شروع ہوا تھا۔

ایٹمی بمباری کا تجربہ مجھے 6 اگست کو اپنے اسکول کے چار پانچ دوستوں کے ساتھ وہیں جاتے ہوئے راستے میں ہوا ۔ میرا خیال ہے وہ مقام منامی کانون ماچی سوگو گراؤنڈ کے کے آس پاس تھا، جو ایٹم بم گرنے کی جگہ سے تقریبا 4 کلومیٹر پر واقع ہے۔ اگر میں اس ٹرین میں سوار ہونے کے بجائے اس کے بعد والی ٹرین پکڑتا تو آئی اوئی باشی کے مقام پر ٹرین کے اندر ہوتا اور ایٹمی بمباری کا براہ راست نشانہ بن کرمرچکا ہوتا۔  مجھے ایسا لگتا ہے جیسے کہ مجھے ایک نئی زندگی ملی ہو۔

ایٹم بم گرنے کے وقت میری پشت کی طرف روشنی کا جھماکہ ہوا تھا۔  مجھے آج بھی اپنی گردن پر محسوس ہونے والی وہ تپش یاد ہے ۔ اس خوفناک دھماکے کی شدت سے میں گر پڑا اور بیہوش ہوگیا۔  تقریباً  پانچ منٹ بعد جب مجھے ہوش آیا تو میں نے ارد گرد نظر دوڑائی۔ فیکٹری کی جگہ اب صرف لوہے کا ڈھانچہ تھا۔ دھماکے کی جگہ سے 4کلو میٹر کے فاصلے پرہونے کے باوجود،اس کی چھت اڑ چکی تھی ۔

"آخر یہ ہوا کیا تھا؟"۔ میں نے سوچا  شاید فیکٹریB-29 کی بمباری کا شکار ہوئی ہے۔ لیکن دوسرے دوستوں کی رائے مختلف تھی ۔" غالباً منامی ماچی کا گیس ٹینک B-29 کی بمباری سے پھٹ گیا ہے"۔لیکن اس وقت صبح 8:15 بجے کوئی ہنگامی حالت تو نہیں تھی  کیونکہ ہنگامی حالت کا انتباہ ختم کیا جا چکا تھا. صبح 8:00 بجے سے پہلے البتہ ہوائی حملے کے خطرے کا سائرن ایک بار  بجایا گیاتھا، جو پھرصرف انتباہ میں تبدیل کیاگیا، اور آخر میں 8:05پر اسے بھی ختم کردیا گیا تھا۔میں نے خود ہنگامی حالت ختم کئے جانے کا سائرن سنا تھا۔

اس سانحہ کے بعد یہ ہدایت جاری کی گئی، "پورا شہر آگ کی لپیٹ میں آچکاہے۔ باہرسےآنے والے لوگ  فی الحال اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں"۔  ہم کالی بارش میں مشرق کی جانب روانہ ہوئے ۔ ایباکو عبور کر کےمیں یوشی جیما اور پھر  سینداپہنچااور پھر ہیجی یاما کی جانب جاتے ہوئے،مایوکی پل کو عبور کیا۔ اس پل کو عبور کرنے سے قبل بہت سے لوگ میری ٹانگوں سے لپٹ  لپٹ کر پانی مانگنے لگے ۔ "پانی دے دو، مجھے پانی دے  دو"۔  مجھے صرف یہی سمجھ میں آیا کہ یہ لوگ زخمی ہیں۔ لیکن اتنے سارے لوگ کیوں زخمی ہیں اور انکے جسم پر آبلے کیوں ہیں، یہ میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھا.۔ میں اپنی ٹانگوں سے لپٹ کر پانی مانگنےوالے  ان لوگوں سے خوفزدہ ہوگیاتھا ۔  " بھائی میں زخمی اور پیاسا ہوں،   مجھے پانی چاہئے، مجھے پانی دے دو"۔ خوش قسمتی سے میں ایٹمی بمباری میں زخمی نہیں ہوا تھااور یہی وجہ تھی کے میں اتنے سارے زخمی لوگوں کو دیکھ کر  ہکا بکا رہ گیا تھا،لیکن میرے پاس آگے بڑھنے کے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا ۔

جب میں ہیجی یاما پہاڑ کے پاس سے گذر رہا تھا تو میں نے ایک فوجی کو دیکھا جس کا پورا بدن سرخ ہو رہا تھا ۔اس کی تمام جلد اس کے بدن سے لٹک رہی تھی۔ وہ شخص   آج بھی میری یادداشت میں محفوظ ہے۔ وہ سانس تو لے رہا تھا لیکن بڑی قابل رحم حالت میں تھا ۔ مجھے دیکھ کر اس نے ایک نعش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا " مجھے اسے ہاتھ گاڑی پر لے جانا ہے۔  بھائی میری مدد کرو، اسے  پاؤں کی طرف سے پکڑ کر اٹھاؤ "۔ میں بے حد خوفزدہ تھا، اسلئے ایسا نہ کر سکا ۔   شکر ہے کہ ہیجی یاما پہاڑ کےنشیبی  علاقے میں لوگوں کی اکثریت زیادہ  زخمی نہیں تھی ۔ اس کی وجہ بمباری کے مقام سے اس علاقے کی دوری تھی۔اسلئے  بہت سے لوگ نعش اٹھانے میں  مدد کر رہے تھے ۔مجھےلگتا ہے وہ فوجی بھی زیادہ دن زندہ نہ  رہا ہوگا ۔

مجھے اندازہ نہیں اس وقت کیا بجاہوگا جب بالآخر رات کو میں  کیتا اسٹیشن پہنچا۔ میری معلومات کے مطابق ایک ٹرین نےکیتا سے  سائی جو کیلئے رات میں روانہ ہونا  تھا۔  بالآخر ایک گھنٹہ سے زائد انتظار  کے بعد ٹرین آگئی  ۔ کھچا کھچ بھری ہوئی   ٹرین میں جب میں سائی جو  پہنچا  تو وہاں گھپ اندھیرے کے سبب لینے کیلئے آئے ہوئے لوگوں کے چہرے نظر نہیں آ رہےتھے ۔ یہ بلیک آؤٹ کا زمانہ تھا اور روشنی کی سخت  ممانعت تھی ۔  لوگوں کی صرف آوازیں سنی دے رہی تھیں  ۔ "آپ لوگوں نے انتہائی مشکل وقت کا سامنا کیاہے، سنا ہے بڑی سخت مصیبت آئی ہے"۔
 
7 اگست کے بعد کی صورتحال
ہمیں اطلاع ملی تھی کہ میرے چچا  ایٹمی بمباری کے وقت ہیجی یاما کے علاقے میں کام کر رہے تھے۔ لہذا میں اور میری چچی ان کی تلاش میں ہیروشیما کی طرف روانہ ہوئے۔ مجھے اب اچھی طرح سے یاد تو نہیں کہ کس طرح سے ہم ایک ٹرک میں شہر کی طرف روانہ ہوئے اور کیسے ہم وہاں پہنچے ،لیکن اتنا یاد ہے کہ ہم 7 تاریخ کو صبح سویرے اس امید پر گھر سے نکلے تھے کہ چچا   اُوجینا میں کسی مقام پر قیام پذیر ہیں۔ ہیروشیما نمبر دو مڈل  اسکول میں گذارے گئے تین سال کا تجربہ یہاں بہت کام آیا۔  شہر کا نقشہ مجھے ازبر تھا۔  اسی وجہ سے میں نے اپنی چچی کے ساتھ بطور رہنما جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ 

بالآخر ہم نے اوجینا کے ایک پناہ گزین کیمپ میں چچا کو تلاش کرلیا۔  مجھے یاد ہے کہ ساحل کے قریب واقع ایک گودام کو کیمپ بنایا گیا تھا۔ میں نے یہاں فوجیوں کو لاشیں ملحقہ راہداری میں منتقل کرتے دیکھا۔ "اوہ، یہ شخص ابھی ابھی مرا ہے۔ اس کی لاش کو دوسری  راہداری منتقل کرنا چاہئے"۔ ایک فوجی نے مجھ سے کہا، "یہ شخص مرچکا ہے، کیا تم اس کو سر کی جانب سے اٹھاؤ گے؟"۔ میں اسقدر خوفزدہ تھا کہ اس کی مدد کرنےسے قاصر رہا۔  چند لوگ دو  دو تین تین کے گروپ بنا کرمرنے والوں کو ملحقہ راہداری میں منتقل کر ر ہے تھے ۔ ایک 20 سالہ لڑکی کی نعش فرش پر برہنہ پڑی  ہوئی تھی ۔ اس کا جسم جل کر سیاہ ہوچکا تھا۔

اگرچہ ہم چچا کو اُوجینا سے سائی جو لے جانے میں کامیاب رہے ، لیکن گھر پہنچنے کے تین دن بعد 10 تاریخ کو ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کی تجہیزوتکفین گھر کے قریب ایک قبرستان میں کی گئی۔ میں مدد کیلئے وہیں موجود رہا۔ دو سال بعد میری چچی کا بھی انتقال ہوگیا۔ میری چچی نے بتایا تھا کے  چچانے  ان کے ساتھ شادی کے بعد صرف 9 سال ہی ساتھ گزارے تھے۔
 
ایٹمی بمباری کے بعد کی زندگی
غالباً اکتوبر کے آخر یا نومبر میں ہیروشیما نمبر دو مڈل  اسکول کی کلاسیں بحال کردی گئیں۔ کانون ماچی کے سابقہ ہیروشیما نمبر دو مڈل  اسکول کی جگہ پر ایک کیبن تعمیر کیا گیا، جس کے اندر ہم نےسردی سے کانپتے ہوئے بنا کسی ہیٹر کے، کیبن کے اندر گھستی ہوئی  برف  میں ٹھٹھرتے ہوئے کلاسیں شروع کیں۔   اس بلڈنگ میں کوئی کھڑکی کوئی روشندان نہیں تھا۔وہ وقت مجھے آج بھی یاد ہے۔ کانون اسکول بلڈنگ  واپسی سے قبل، ہمیں گرلز  اسکول کائتا اور پھر ایک بچ جانے والی پرائمری اسکول کی بلڈنگ عارضی طور پر لے کر دی گئی تھی ۔

میں پڑھائی جاری رکھنا چاہتا تھا۔اسکے لئے کلاسیں لینا ضروری تھا تاکہ اچھے نمبرمل سکیں ۔ اسقدر سردی میں کلاسیں لیتے ہوئے بھی میں نے شکر ادا کیا  کہ کیبن میں ہی سہی،  پڑھائی تو جاری ہے ۔1947 میں، پرانے نظام تعلیم کے تحت مڈل اسکول کے 5 ویں سال کے اختتام پر  میں نے اسکول پاس  کیا ۔  اس اسکول سے فارغ تحصیل ہونے کے بعد  میں نے ہیروشیما انڈسٹریل کالج، سیندا  ماچی میں داخلہ لیا۔ 

انڈسٹریل کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ، 1955سے 1964 کے دوران، جب آٹوموبائل کی صنعت دنیا میں تیزی سے ترقی کر رہی تھی، میں نے ایک ڈرائیونگ اسکول قائم کرنے کا  فیصلہ کیا۔ شروع میں اپنے دوست  کے ساتھ  ہاتھوں میں کدالیں تھام کر  ڈرائیونگ ٹریننگ  کورس کے راستے بنائے۔ انڈسٹریل کالج کا تجربہ کام آیا اور مجھے بنیادی علم اور عملی مشق  کےلئے   انسٹرکٹرہونے کا  لائسنس مل گیا ۔  1960 میں، میں نے بطور چیف انسٹرکٹر شہر کے ایک ڈرائیونگ اسکول میں کام شروع کردیا۔
1966میں، میں نے ڈرائیونگ اسکول کی ملازمت چھوڑ دی کیونکہ میرے بھائی نے مجھ سے بوڑھے لوگوں کیلئے ایک نرسنگ ہوم  چلانے کیلئے مدد مانگی تھی اور میں اس کام کیلئے بخو شی راضی ہوگیاتھا ۔ مجھے اپنے بھائی پر فخر ہے کیونکہ اس نے بطور چیئر مین میڈیکل ایسوسی ایشن تک  خدمات سرانجام دیں۔ ہم دونوں بھائیوں نے کاروبار چلانے کیلئے آپس میں بہترین تعاون کیا لیکن اچانک ہی میرے بھائی کا دماغی رگ پھٹنے سے انتقال ہوگیا۔  دکھ اورصدمے کی وجہ سے میں تین دن تک سو نہ سکا۔ وہ   میاجیما اور یوکی میں واقع اداروں کو جاتا رہتا تھا  ۔ چونکہ وہ اسپتال کا ڈائریکٹر بھی تھا اسلئے لمبے سفر پر میں ہمیشہ بطور ڈرائیور اسکے ساتھ ہوتا تھا۔ میں نے بطور ڈرائیور اپنے بھائی کے مشن میں اس کی مدد، اپنا فرض سمجھ کر کی۔  میرے  بھائی نے اپنی زندگی تعلیم کیلئے وقف کر دی تھی ،تو میں بھی ایک اتھلیٹ تھا۔ ہم نے ایک مشترکہ مقصد کیلئے ایک دوسرے سے تعاون کیا تھا۔میرے بھائی کی موت میرے لئے درحقیقت ایک بہت بڑا صدمہ تھی۔
 
ملازمت، شادی اور مابعد اثرات
جلد ہی میں اور میری بیوی اپنی شادی کی پچاسویں سالگرہ منا رہے ہوں گے۔ جب ہم نے شادی کا فیصلہ کیا تو میری کوشش تھی کہ میں یہ حقیقت اس سے چھپالوں کہ میں ایٹم بم متاثرین میں سے ایک ہوں، کیونکہ میں بخوبی جانتا تھا کہ ایٹم بم متاثرین سے تفریق برتی جاتی ہے۔ لہذا میں نے اپنی بیوی کو اس طرح سے آگاہ کیا، "یقینا میں ایٹمی بمباری کے تجربے سے گذرا ہوں لیکن بم گرنے کے مقام سے میں اس وقت 5 کلو میٹر دور منامی کانون کے کنارے پر تھا جہاں اس وقت میں متسوبشی میں کام کر رہا تھا۔  لہذا مجھے کچھ نہیں ہوا اور نہ ہی مجھے کسی قسم کے زخم آئے"۔ میری بیوی نے اس پر فکرمند ی کا کوئی اظہار نہیں کیا۔  میرا بیٹا جو کہ ایک ماہر ادویہ ہے، اسے اس بارے میں بخوبی معلومات ہیں ، اور وہ خود کو ایٹم بم متاثرین کی دوسری نسل میں سے سمجھتا ہے۔  جب میرا بیٹا اور بیٹی پیدا ہوئے تو میں ان کی طرف سے تھوڑا سا فکرمندتھا۔ میں نے خفیہ طور پر اپنی تسلی کروائی  کہ ان میں کوئی مسئلہ تو نہیں ہے۔

ایٹم بم گرنے کے دس سال بعد میری گردن پیچھے سےسوجنا شروع ہوگئی تھی۔ یہ بدنما تو نہیں لگتی تھی لیکن کافی ابھری ہوئی تھی۔  یہ اس جگہ نمودار ہوئی تھی جو پشت سے براہ راست ایٹمی بمباری کے جھماکے کی  زد میں آئی تھی ۔ میں نے اس جگہ کی سرجری کروائی لیکن دس سال بعد یہ دوبارہ ابھر آئی۔ اس کے بعد سے یہ مزید بڑھنا بند ہوگئی۔ ایک اورصورتحال جسے ایٹم بم کا شاخسانہ قرار دیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ میرے دانت دوسرے لوگوں کی نسبت تیزی سے کمزور ہوتے گئے۔ چند ایٹم بم متاثرین کے بال بھی اڑگئے تاہم میرے بال نہیں گرے ۔ دراصل ایٹمی بمباری کے مابعد اثرات ایک سے دوسرے شخص میں مختلف ہیں لیکن ایک چیز سب میں مشترک ہے  اوروہ  یہ کہ سب ہی جلد تھک جاتے ہیں۔  دوران ملازمت میرا باس مجھے سست سمجھتا تھا، وجہ یہ تھی کہ میں دوسروں کی نسبت اسی طرح کے کام میں جلد تھک جاتا تھا۔  "دیگر لوگ اسقدر کام دیکھ کر نہیں گھبراتے۔ لیکن تم تھک جاتے ہو، کیونکہ تم کاہل ہو"۔ کام کے دوران جلد تھکاوٹ کوئی اچھی علامت نہیں ہے۔
 
امن کی خواہش
میرے نقطہ نظر سے ایٹمی بمباری اور امن کا مفہوم نئی نسل کو بتانے سے پہلے،  بتانے والے کوانداز بیان میں تھوڑا سا نیا  پن لاناچاہئے۔ ایٹم بم گرنے کےساتھ ہی  بلڈنگیں پلک جھپکنے میں گرگئیں اور  لوگ سیکنڈوں  میں لقمہء اجل بن گئے تھے۔  لہذا اس طرح کی باتیں بیان کرتے وقت آپ کو اپنے بیان میں تھوڑی سی جدت پیدا کرنی چاہئے۔  بار بار صرف یہی کہنا کہ "سب بہت خوفناک تھا"، یا صفائی پیش کرنا کہ "مجھے افسوس ہے میں  ضرورتمندوں کو پانی فراہم نہ کر سکا "، یا  " میں صرف اپنی جان بچا کر بھاگ  نکلنے میں کامیاب ہوا کیونکہ آگ کے شعلے پل کے نیچے پہنچ رہے تھے"۔ اس طرح سے نئی نسل تک کوئی پیغام نہیں پہنچتا۔یا پھر یہ کہنا کہ "ہمارے ہاں یادگاری امن میوزیم ،ہیروشیما یادگاری امن پارک ہے، براہ کرم اسے دیکھیں۔  وہاں امن کے درخت ہیں"۔      اس سے بھی ایٹم بم کی ہولناک تباہ کاریاں واضح نہیں ہوتیں۔ اس طرح کے تاثرات سے لوگ سمجھتے ہیں کہ  ایٹم بم کوئی اتنا بڑا مسئلہ بھی نہیں تھا۔ ہوکائیدو میں ایک طوفان آیا تھا جو بہت سے لوگوں کی جان لے گیا۔ طوفان کے بعدہونے والی تباہ کاری کا منظر ایک ویڈیو میں دکھایا گیا۔  ایٹم بم گرنے اور طوفان گذرنے کے بعد کےدونوں مناظر یکساں نظر آتے ہیں۔   یہ ایک واضح اورحقیقی منظر تھا۔ ایک بچہ بھی طوفان کی اصل تباہ کاریوں کا مشاہدہ اس ویڈیو سے کرسکتا ہے۔  اسی طرح ایٹمی بمباری سے بلڈنگیں پلک جھپکنے میں زمین بوس ہوگئیں اور شعلوں میں گھر گئیں۔ لگ بھگ 2 لاکھ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ لہذا حقیقی مناظر کی ویڈیو ایٹم بم کی تباہ کاریوں کو اجاگر کرنے میں زیادہ مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔

ایٹم بم گرنے کے کچھ ہی دیر بعد مائی نچی اخبار اور اساہی اخبار کے پیشہ ور فوٹوگرافر ہیروشیما  تباہی کے مناظر کی تصویر کشی کیلئے پہنچ گئے تھے ۔ ان فوٹوگرافروں نے متعدد بار جنگی علاقوں کی تصویر کشی کی تھی، لیکن  ان کا بھی یہ کہنا تھا کہ ہیروشیما میں گرنے والے ایٹم بم کی تباہی کے سامنے ان جنگی علاقوں کی تباہی کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھی۔ لہذا  اس سانحہ کوکس اندازسے بیان کرنا  چاہئے؟ میرے خیال میں بیان کرتے وقت تھوڑی  سی جدت  پیدا کرنا ضروری ہے۔

آخر میں کہنا چاہوں گا کہ جس ہیروشیما نمبر دو مڈل  اسکول کا میں طالب علم تھا وہاں کے کئی جونئیر طالب علم ایٹم بم کی تباہ کاریوں کا شکار ہوگئے۔  میری کلاس کے کچھ بچ جانے والے طالب علم حال ہی میں انتقال کرچکے ہیں۔ میں اپنے بھائی کی موت کے بعدبہت  تنہائی محسوس کرتا ہوں۔  آج کل میں جسمانی طور پر معذور ہوں اور میری دیکھ بھال میری بیوی کرتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ میں کم ازکم مزید دو سال تک زندہ رہوں گا۔  مجھے خوشی ہوگی اگرمیں خود پر بیتنے والی داستان، بستر مرگ پر جانے تک ،ممکن ہو تو ہرہفتے ورنہ  ہر دوسرے ہفتے،  اپنی نوجوان نسل، بچوں اور پرائمری اسکول کے طلبا و طالبات کو سنا سکوں۔

 
 
 

جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ اس ویب سائٹ پر موجود تصاویر اور مضامین کی غیر مجاز نقل کرنے کی سختی سے ممانعت ہے۔
ہوم پر واپس لوٹیںTop of page
Copyright(c) Hiroshima National Peace Memorial Hall for the Atomic Bomb Victims
Copyright(c) Nagasaki National Peace Memorial Hall for the Atomic Bomb Victims
جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ اس ویب سائٹ پر موجود تصاویر اور مضامین کی غیر مجاز نقل کرنے کی سختی سے ممانعت ہے۔
初めての方へ個人情報保護方針
日本語 英語 ハングル語 中国語 その他の言語