国立広島・長崎原爆死没者追悼平和祈念館 平和情報ネットワーク GLOBAL NETWORK JapaneaseEnglish
 
Select a language / اردو (Urdu・ウルドゥ語) / Memoirs (ایٹمی بم کے متاثرین کی یادداشتیں پڑھیں)
 
ایٹمی بمباری جھیلنے کا میرا تجربہ 
تناکا تسونےماتسو(TANAKA Tsunematsu) 
جنس مرد  بمباری کے وقت عمر 31 
تحریر کا سال 2008 
بمباری کے وقت محل وقوع ہیروشیما 
Hall site ہیروشیما قومی امن یادگاری ہال برائے متاثرین ایٹمی بمباری 
 ایٹمی بمباری کے زمانے میں زندگی 
ان دنوں میری عمراکتیس سال تھی۔ میں کوماچی میں واقع چُو گوکُو ہائدین کارپوریشن (موجودہ  چُو گوکُو الیکٹرک پاور کمپنی ) میں کام کرتا تھا اور اوتے ماچی میں اپنی بیوی می کئے،اور دو بچوں (تین سالہ بیٹے اور سات مہینے کی بیٹی ) کے ساتھ ایک کرائےکے مکان میں رہائش پذیر تھا۔ چو گوکو ہائدین کارپوریشن کو جوائن کرتے وقت میری عمر بیس یا اکیس سال رہی ہوگی کیونکہ میں نے  اونو می چی  مڈل اسکول پاس کیا تھا اور فروری  1934میں اپنا ڈرا  ئیونگ لائسینس حاصل کیا تھا ۔ جب میں چو گوکو ہائدین میں تھا تو دو بار مجھےلازمی فوجی خدمات کیلئے  طلب کیا گیا ۔ پہلی بار ستمبر1934سے  جنوری 1941تک،  اور دوسری بار ستمبر 1942سے نومبر 1943تک ۔ دونو ں بار میں اسی کام پر لوٹ آیا تھا۔

1945 میں مارچ کے اواخر  میں " کُرے " میں زبردست ہوائی حملوں  کے بعد میں نےاکثر  لڑاکا ہوائی جہازوں کے  غول واپس جاتے ہوئے دیکھے ۔ میرے مکان میں ہوائی حملے سے بچاؤ کیلئے ایک زمین دوزپناہ گاہ تھی جو شاید پہلےکے مکینوں نے بنائی ہوگی۔ جب بھی ہوائی حملہ ہوتا تھا تو ہم اس پناہ گاہ کی طرف دوڑتے تھے،لیکن چھوٹے  بچوں کا ساتھ ہونےکے سبب ایسی صورتحال میں کافی مشکل ہوتی تھی۔ ایک کو سنبھالو تو دوسرا  وہاں سےنکل بھاگنے کی کوشش کرتا تھا۔ چونکہ یہ جنگ کا زمانہ تھا اسلئے میں نے سوچا کہ ایسے  کام نہیں چلے گا ، اسلئے مارچ کے آخر  میں اپنے بیوی اور بچوں کو   فتامی گن کےوادا  گاؤں میں  مکو  ایتا علاقے (موجودہ می یوشی شہر مکوایتا ٹاؤن) میں انکے نانا کے گھر پہنچادیا۔

 میں نے گھر خالی کرکے سارا  گھریلو سامان  کمپنی کے گودام میں رکھ دیا تھا  اور انہیں وہاں چھوڑنے کے بعدخود اسی گودام میں عارضی رہائش اختیار کر لی تھی۔ لیکن مئی کے شروع میں جب میں ہفتہ اور اتوار کی چھٹی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ گزار کر اس گودام میں واپس آیا تو میں نے دیکھا کہ وہاں بمباری ہونے کے با عث سب کچھ جل کر راکھ ہو چکا ہے۔ بدلنے کیلئے کوئی کپڑے بھی نہ تھے اسلئے میں اسی حالت میں وادا  گاؤں کو واپس لوٹ گیا۔ وہاں میری بیوی نے گرمیوں کےلباس کمونوسے   میرے لئے ایک قمیض اور پاجامہ بناکر دیا۔ میں پیرکے دن پہلی ریل گاڑی  سے کام پر پہنچ گیا۔ چونکہ میں اپنا عارضی ٹھکانا  کھو چکا تھا اسلئے کام  کے ساتھی کی معرفت اوشیتا ماچی  میں  ایک کمرہ کرائے پر لیکر رہنا شروع کیا اور ایٹمی بمباری کے واقعے تک وہیں رہائش پذیر رہا۔
 
ایٹمی بمباری سے نقصانات 
 ان دنوں جب رات میں ہوائی حملہ کاسائرن بجتا تھا تو مجھے میونسپل دفتر کےسیکیورٹی خدمات کے حکم کے تحت، کام والے کپڑے پہن کر رات میں چوکیداری کرنی ہوتی تھی۔ یہ  ذمّےداری فوجی تجربے کے حامل افراد کودی جاتی تھی۔  5 اگست کی رات بھی ہوائی حملے کے خطرے کا الارم بجایا گیاتھا اور میں اپنے لئے مختص کردہ علاقے   یا نا  گی باشی کی چوکیداری پر مامور تھا ۔جس رات چوکیداری کرنی ہوتی تھی اسکےاگلے دن کام پرصبح آٹھ بجےنہیں بلکہ ساڑھے آٹھ بجےپہنچنا  ہوتاتھا، لیکن 6 اگست والے دن مجھے ایسا کوئی پیغام نہیں ملا تھا اسلئے میں صبح آٹھ بجے ہی اپنے کام پر کمپنی میں پہنچ  گیا ۔ اوراسی بات نے مجھے بچا لیا۔

کام شروع ہونےمیں ابھی آدھ گھنٹہ باقی تھااسلئے میں عملے کیلئےبنائے گئے  زیر زمین غسل خانےمیں جاکررات والے کپڑے دھونے شروع کئے۔ میں کپڑے دھونے کیلئےجھکا ہواتھا کہ اچانک اپنے  سامنے کی طرف سے آنے والے دھماکے کے ساتھ ہی عقب میں دیوار سے جا ٹکرایا  اورہوش سے بیگانہ ہوگیا۔ مجھے سوائےایک جھماکہ کے  کچھ یاد نہیں۔ جب مجھے ہوش آیا تووہاں دھول کے سبب  گھپ اندھیرا تھا ۔لیکن جیسے ہی اوپر پانچویں یا چھٹی منزل پر آگ کے شعلےدکھائی  دئے،میرا ذہن صاف ہوگیاکہ مجھے کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔ مجھے اپنے سامنے کچھ نظر نہیں آرہاتھا۔ میں صرف اپنی یادداشت کےسہارے راستہ ٹٹول کر آگے بڑھ رہا تھا ۔سیڑھیوں کی تلاش میں چیزوں سے ٹکراتا ہوا، بالآخرمیں عمارت کے  کنارےپر واقع گارڈروم تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔وہاں سے میں ٹرام والی سڑک دیکھ سکتا تھا۔ جب میںسڑک تک پہنچاتومیں نے دیکھاکہ ٹرام ایک رہائشی مکان کیساتھ ٹکرا کرالٹی ہوئی ہے۔ تب مجھے احساس ہوا کہ یہ معاملہ  سنگین ہے۔وہاں کوئی نہیں تھا جو مجھے بتاسکےکہ مجھےکس طرف جانا چاہئے ۔

ویسے ہماری کمپنی کے جنوب میں واقع ہیروشیما کے فرسٹ مڈل اسکول کے گراؤنڈ کو پناہ گاہ مقرر کیاگیاتھا لیکن مجھے اس بات کا  علم نہ تھااسلئے میں ٹرام کی پٹریوں کے ساتھ ساتھ شمال کی طرف چلتے ہوئے شرا کامی کمپنی سے ذرا پہلے دائیں ہاتھ کو مڑکر    تاکے یا چو    کے ساتھ ساتھ مشرق کو چلتا  گیا۔  راستے میں دیکھا  کہ ہیروشیما فرسٹ گرلز ہائی اسکول کی با ڑ روڈپر گری پڑی ہے اورایک لڑکی یا عورت اس با ڑ تلے پھنسی ہوئی ہے ۔اس کا صرف چہرہ نظر آرہا تھا اور وہ مدد کیلئے پکار رہی تھی ۔لیکن  خودمیری حالت بری تھی ۔ میری پیٹھ میں شیشے کی کرچیاں چبھی ہوئی تھیں اور میری پیٹھ سے خون رس رہا تھا ، اسلئے اس عورت کی مدد کرنے کے بجائےمیں اپنی جان بچانے میں لگاتھا۔

پھر میں نے   " تا کے یا" دریا   کے ساتھ ساتھ جنوب کی طرف اترتے ہوئے  می یو کی پل کی سمت بڑھنا شروع کیا ۔ تاکےیادریا    اپنے نام کے برعکس  ایک  چھوٹا سانالہ ہے جو نقشے میں بھی  نہیں دکھا یاگیا ہے ۔ یہ نالہ   فو کو یا   کے  نیچے زیر زمین گزرتاہے ۔میں نے اپنے سوا کسی اور کو جان بچا کر بھاگتے ہوئےنہیں پایا ۔البتہ  تا کے یا  نالے کے اس پارایک گھر میں   کچھ لوگوں کو  ملبہ صاف کرتے ہوئےدیکھا جو ایک دوسرے سے کہہ  رہے تھے کہ بڑی سخت مصیبت  آئی  ہے۔مجھے وقت کا  کچھ اندازہ نہیں ہو رہا تھا لیکن ایسا لگتا تھا کہ کافی وقت گزر چکا ہے ۔

می یو کی پل عبور کرنے سے ذرا پہلےمجھے  ایک فوجی ٹرک نظر آیا جس میں مجھے   اُو   جینا  بندرگاہ  تک لفٹ  مل گئی ۔و ہاں سے میں  بذریعہ کشتی نینو شیما   جزیرہ جا  پہنچا ۔ وہاں کافی  ابتر حالت تھی  اور  بہت سارے زخمی  لوگ پناہ لئےہوئے تھے ۔کچھ ڈاکٹر تو موجود تھے  لیکن  مجھے اپنی پیٹھ میں چبھے ہوےٴ شیشے  کی کرچیاں نکلوانے کے لئے کوئی معقول علاج میسّر  نہ آسکا ۔بس انہوں نے میری کمر پر پٹیاں باندھ دیں،اور شیشے کی کرچیاں  میری کمر میں چبھی رہ  گئیں ۔اس رات میں سو نہ سکا  کیوں کہ  کچھ لوگ پاگلوں کی طرح  شور کر رہےتھے ، کچھ آہ وفغاں کر رہے تھے ۔کچھ ان شور کرنے والوں پر بری طرح  غصّہ ہو رہے تھے،اور کچھ سوتے ہوئے لوگوں کے گرد   بھاگ دوڑ  رہے تھے ۔ کچھ  ان دوڑ بھاگ کرنے والے لوگوں کو غصّے  سے ڈانٹ رہے تھے ۔6 اگست والے دن  میں کچھ بھی  نہیں کھا سکا  تھا  ۔7 اگست کی صبح مجھے  بانس کی  نلکی میں  چاول کا  دلیا دیا  گیا  جسے میں نے   ایک خشک آلو بخارے کے ساتھ کھایا۔ نینو  شیما میں  بس یہی  میرا  کھانا تھا ۔

میں نے سوچا اگر یہی حالت رہی  تو  میں  مر نہ  جاؤں ،اس لئے  ایک فوجی سے واپسی کی  اجازت  حاصل کر کے اسی وقت  بذریعہ کشتی   اُو جینا کی بندرگاہ  لوٹ آیا ۔خوش قسمتی سے مجھے وہاں  ایک ٹرک مل گیا ۔میں نے ڈرائیور  سے پوچھا  کہ وہ  کہاں جا رہا  ہے ۔اس نے بتایا کہ  وہ  شہر کی بلدیہ کے دفترجا رہا ہے ۔ میں نے درخواست کی  کہ وہ مجھے وہیں تک لے جاےٴ، اس نے کہا چلو بیٹھ جاؤ۔بلدیہ دفتر کے  دروازے پر پہنچے تو میں  اسکا  شکریہ ادا کرتے ہوۓ ٹرک سے نیچے اتر گیا  اور  پیدل اپنی کمپنی کو  روانہ ہوا  جو وہاں  سے ذرا آگے  شمال کی طرف واقع تھی۔کمپنی پہنچا تو وہاں استقبالیہ پر عملے کے دو افراد موجود تھے  جو مجھے  جانتے تھے ۔میں نے انہیں اطلاع دی کہ اب میں   می یو شی    میں واقع اپنی سسرال کو جاؤں گا اور انہیں وہاں کا پتا لکھوا دیا ۔پھر میں پیدل  کا می یا چو   اور   ہاچّوبوری   سے گزرتے ہوۓ  او شی  تا  ماچی     کی قیام گاہ   پہنچا ۔ وہاں  ایک  رات گزار  کر  اگلے دن 8اگست کو   ہے سا کا   اسٹیشن  سے   وادا   گاؤں  کے لئے   ریل گاڑی  میں  سوار ہوا ۔ میں  جلد از  جلد  وہاں  پہنچنا  چاہتا تھا  کیوں کہ  میں سوچ رہا  تھا  کہ  میری بیوی  میرے لئے  پریشان  ہو رہی ہو گی ۔ راستے  کے حالات مجھے اچھی طرح یاد  نہیں مگر  صرف اتنا  اچھی طرح یاد ہے کہ   کوہے    پل کے مقام پر   بہت سی لاشیں  اکٹھی  رکھی  ہوئیں  تھیں۔
 
ایٹمی بمباری  کے بعد کے حالات           
جب میں  وادا   گاؤں پہنچا تو میری پیٹھ میں  شیشے کی کرچیاں  ابھی تک چبھی ہوئی تھیں۔میں روزانہ  دریا   پر جاتا تھا  جہاں  میری بیوی  میری پیٹھ کو  دھوتی  تھی۔ میری پیٹھ  پر  خون  جم کرتارکول کی طرح  چپکا  ہوا تھا ۔ جب میری بیوی   جمے ہوئے خون کے کھرنڈ  کو  سوئی  سے نکالتی  تھی تو شیشے کی  کرچیاں بھی  اس کے ساتھ   ہی   باہر  نکل آتی تھیں۔بیوی کے ساتھ  دریا  پر جا کر  جمے ہوۓ خون اور شیشے  کی کرچیوں  کو  نکالنے کا یہ عمل  ہفتہ دس دن  تک جاری رہا ۔میرا خیال تھا کہ ساری کرچیاں  نکل گئیں ہیں لیکن  1955کے بعد کے سالوں میں میری پیٹھ میں پیپ بننےلگی تو میں نے سکائی  ماچی   کے سرجیکل  اسپتال میں جاکر   بقیہ  تمام کرچیاں نکلوائیں۔

وادا گاؤں میں پہنچنے  کے کچھ  دن  بعد  جبکہ  ابھی میری پیٹھ سےتمام  شیشے  کی کرچیاں نہیں نکلی تھیں ،تو میرے  والد    او نو  مچی   سے آئے ۔ایٹمی بمباری کے بعد سے ابھی تک میں نے  او نو مچی   میں اپنے رشتے داروں سے رابطہ نہیں کیا تھا  اس لئے  میرے والد  یہ سمجھ بیٹھے تھے  کہ   شاید  میں زندہ نہیں بچا ہوں گا ۔ وہ   وادا  گاؤں یہ بات چیت کرنے کے لئے آ ئے تھے  کہ میری  موت  کی رسم            کہاں انجام دی جائے۔مجھے زندہ پا کر  وہ بے حد  حیران  اور خوش ہوئے، اور  برآمدے  میں بیٹھ کر صرف سبز چائے  پینے کے بعد   او نو مچی    واپس لوٹ گئے۔

 میں نے وادا   گاؤں  میں تقریبا  تین ہفتہ  تک صحت یابی   کیلئے  قیام کیا  ۔  اس دوران   مجھے  اندرونی  ا عضا  میں کوئی تکلیف  بھی محسوس نہ ہوئی اور میں بالکل ٹھیک ٹھاک  رہا ،اسلئےمیں  اگست کے آخر یا ستمبر کے شروع میں ہیروشیما اپنے کام پر لوٹ گیا۔

کام پر لوٹنے کے کچھ ہی دن بعد مجھے خونی دست  آنے لگے ۔  مجھے یاد ہےکہ اخروٹ گرنے کے دن تھے  اسلئے یہ ضرور وسط ستمبر کی بات ہوگی ۔میں   صحتیابی کےواسطے   اونومیچی میں اپنی سسرال چلا گیا۔ میری  حالت کے پیش نظر میرے ڈاکٹر سمیت  سب کو یہ خیال تھا کہ مجھے خونی پیچش لاحق ہوگئی ہے ، اور معاملہ مجھے علیحدہ قرنطیہ میں رکھنے کی بات چیت تک پہنچ گیا تھا۔ لیکن  میری بہن  نے مجھےاخروٹ والے چاول ابال کرکھلائے، جس کے بعد میری خونی پیچش ٹھیک ہوگئی۔ عجیب سی بات لگتی ہے مگر میں  ایسا ہی سمجھتا ہوں۔ اونو مچی  میں اچھی طرح کھانے پینے  سے میں چار  پانچ دن میں   صحتیاب  ہوگیا اور پھر ہیروشیما کام پر واپس لوٹ گیا۔
 
جنگ ختم ہونے کے بعد کی زندگی
جب میں کام پر  واپس  پہنچا تو  پتا چلا کہ او ر بھی بہت سے ملازمین  بے گھر ہو چکے ہیں۔ ہم  نے کمپنی  کی  پانچویں منزل پر ساتھ مل کر  رہنا شروع کردیا ۔شروع میں تو ہم لوگ خود اپنا کھانا بناتے تھے ، لیکن بعد  میں کمپنی  نے ہمارے لئے  باورچی  کا بندوبست  بھی کر دیا ۔

چونکہ  میں گاڑی چلا سکتا تھا اس لئے مجھے       انتظامی ڈیپارٹمنٹ کےمٹیریل سیکشن  میں ٹرک ڈرائیونگ کی ذمہ داری  سونپی گئی ۔میں کمپنی سے  مٹیریل لے کر    ہیرو شیماپری فیکچر میں واقع ہر پاورپلانٹ  کوپہنچا یا  کرتا تھا ۔

1946میں میرے بیوی بچے   ہیرو شیما   واپس لوٹ آئے ، اور میں ان کے ساتھ رہنے لگا۔کمپنی کے ساتھیوں نے کام سے چھٹی ہونے کے  بعد  ہمارے  لئے ستون وغیرہ  خرید کر   اے  نو مچی  میں گھر بنا دیا ۔  ہم اس کے بعد 30 سال تک   اے نو مچی  میں رہے ۔

بہت سی مشکلات کے باوجودکھانے  پینے  کے معاملے میں ہمیں سہولت  میسّر تھی  کیونکہ میری سسرال والے  ہمیں  چاول  بھیج دیا کرتے تھے ۔لیکن ہمارے پاس کوئی کپڑے اور بستر نہیں تھے کیوں کہ  یہ سب میں نے  کمپنی  کے گودام میں رکھ دئیے تھے جہاں وہ  سب جل کر راکھ ہو چکے تھے۔ پرانے کمونو ادھیڑ کر اسکے  کپڑے میں سے ہم زیر جامے وغیرہ بنا لیا کرتے تھے ۔  او نو مچی میں مقیم  والد  کی طرف سے بستر وغیرہ حاصل ہوگئےتھے ۔اس طرح ہم نے سب لوگوں کی ہمدردیوں پر انحصار کرتے ہوئےازسر نو  زندگی کی شروعات کی تھیں ۔
 
صحت کے بارے میں 
 جولائی 1947میں ہمارے ہاں  دوسری بچی  کی ولادت ہوئی ۔مجھے بہرحال اس بات کہ اندیشہ تھا کہ اس کے جسم میں ایٹمی بمباری کے اثرات  نہ  ہوں ۔ جب وہ کنڈر  گارڈن میں تھی تو اگر اسکی نکسیر  پھوٹنے پر  جلد ہی بند نہ ہو  جاتی یا اس میں دوسرے بچوں سے کوئی بات مختلف نظر آتی تو  مجھے یہی ڈ ر لگتا کہ اسکا تعلق ایٹمی بمباری کے  اثرات  سے نہ ہو ۔

جہاں تک میرا تعلّق  ہے، 1956  میں  مجھے معلوم ہوا کہ مجھے ٹی بی  کی قسم کا  ایک پھوڑا نکل آیا ہے اور میرے خون کے سفید خلیوں کی تعداد 2000 اوربعض اوقات تو مزید کم  ہو کر صرف  1000رہ گئی تھی۔میرا وز ن جو پہلے 65 کلوگرام  تھا، وہ   بھی تقریباً 8 کلوگرام کم ہو گیا تھا ۔جولائی 1956سے لے کر ستمبر 1957 تک  یعنی ایک سال تین مہینے میں     ہاتسو کا ئیچی ٹاؤن (موجودہ   ہاتسو کا ئیچی شہر)  میں  ہارا  میں واقع ہسپتال میں  داخل رہا ۔میں نے کمپنی سے دو سال  چھٹی کی تھی۔ 7 جولائی  کو میں ہسپتال میں داخل ہوا تھا ، جو  تانا با تا (ستاروں کے ملاپ کے) تہوار کا دن تھا ۔ اس دن صبح ناشتے  کے دوران میری دوسری جماعت  میں پڑھنے والی بچی  نے کہا"ستارے  آج ملنے والے ہیں ، لیکن ہم بچھڑنے والےہیں نا ؟"۔ یہ  سن کر سب کی آنکھوں میں آنسو  آ گئے ۔

بہرحال میں اسکے بعد بغیر  کسی بڑی بیماری  میں مبتلا  ہوئے ٹھیک ٹھاک زندگی گزارتا رہا۔  البتہ کوئی دس بارہ  سال  قبل سے پھر دوبارہ خونی دست  شروع ہو گئے ہیں ۔تب سے میں    ریڈ کراس  ہسپتال میں داخل ہو کر خون نکلنا بند ہونے تک انجکشن  وغیرہ لگواتا ہوں۔

چار  سال قبل میرا پراسٹیٹ  کینسر کا آپریشن ہوا، جس کے بعد مجھے ایٹمی بمباری کہ متاثرہ فرد ہونے کا  سرٹیفیکٹ  دیاگیا۔
 
موجودہ احساسات
اب میری عمر چورانوے سال کی ہو رہی ہے اور میں شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھے اتنی طویل زندگی ملی ہے۔ اسکے  لئے میں اپنی بیوی کا احسانمند ہوں اور بچوں کا بھی کہ وہ میرا  اتنا  خیال رکھتے ہیں۔میں سب کا شکر گزار ہوں۔
 
 

جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ اس ویب سائٹ پر موجود تصاویر اور مضامین کی غیر مجاز نقل کرنے کی سختی سے ممانعت ہے۔
ہوم پر واپس لوٹیںTop of page
Copyright(c) Hiroshima National Peace Memorial Hall for the Atomic Bomb Victims
Copyright(c) Nagasaki National Peace Memorial Hall for the Atomic Bomb Victims
جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ اس ویب سائٹ پر موجود تصاویر اور مضامین کی غیر مجاز نقل کرنے کی سختی سے ممانعت ہے۔
初めての方へ個人情報保護方針
日本語 英語 ハングル語 中国語 その他の言語