国立広島・長崎原爆死没者追悼平和祈念館 平和情報ネットワーク GLOBAL NETWORK JapaneaseEnglish
 
Select a language / اردو (Urdu・ウルドゥ語) / Memoirs (ایٹمی بم کے متاثرین کی یادداشتیں پڑھیں)
 
ماں کے لئے میرے جذبات 
کاواگوچی ہیروکو(KAWAGUCHI Hiroko) 
جنس خاتون  بمباری کے وقت عمر
تحریر کا سال 2008 
بمباری کے وقت محل وقوع ہیروشیما 
Hall site ہیروشیما قومی امن یادگاری ہال برائے متاثرین ایٹمی بمباری 
 6 اگست سے پہلے کی صورتحال
ان دنوں میرا گھر کامی تینما چو میں تھا ۔ہمارا کنبہ چار افراد پرمشتمل تھا، یعنی میری ماں، بڑا بھائی ،بڑ ی بہن اور میں۔ میرے والد اومویا  توشی او، چین میں ایک جنگ کےدوران 1938 میں مارےجاچکےتھے۔ جن دنوں میرےوالدکاانتقال ہوا تھا، ان دنوں میں بہت چھوٹی تھی،اس لئےمیں نےاپنے والدکوصرف تصویروں میں ہی دیکھا ہے۔میرے گھر والے مجھے بتاتے ہیں کہ بچپن میں جب بھی میں اپنے والد کی تصویردیکھتی تو کہتی کہ "چونکہ ابو کی  چپلیں نہیں پیش کی گئیں اسلئے وہ تصویر سے  باہر نہیں آئیں گے"۔

میری والدہ کا نام شیزوکو تھا، اور انہوں نے تنہاہم سب کو پالا۔ دوسروں کے مقابلے میں میری ماں کا تعلیم کی  طرف بہت زیادہ رجحان تھا۔ جنگ کا زمانہ تھا، لیکن پھربھی انہوں نے مجھے خطاطی اور رقص سیکھنے کی اجازت دے رکھی تھی۔میرے بھائی نے جب مڈل اسکول میں داخلے کا امتحان دیا  تو میری ماں روز صبح  مندر جا کر میرے بھائی کی کامیابی کےلئے  دعائیں کیاکرتی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ خاوند کی موت کے بعد، بچوں کیلئے چھوڑی جاسکنے والی چیزصرف  تعلیم ہی ہوسکتی ہے۔

اسکے لئے انہیں روزانہ صبح سے شام تک   کئی  کام کرنے پڑتے تھے۔ جب وہ صبح کااخبارڈالنےجایا کرتی تھیں تو میرے بڑےبھائی اور بہن بھی ان  کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔اس وقت میں بہت چھوٹی تھی لیکن پھر بھی میں ان کے پیچھے پیچھے چلاکرتی اور یہ بات مجھے آج بھی یاد ہے۔ میری ماں روزانہ  کام کاج میں مصروف رہتیں ۔ میرےچچا کا خاندان اسی علاقےمیں تھا جبکہ میرے دادا کا خاندان ایک قریبی علاقے ہیروسے موتوماچی میں تھا ۔

اس زمانہ میں ہمسائےبھی قریبی رشتے داروں کی طرح پیش آتےتھے۔ اردگرد کے لوگ ہمارا خیال رکھاکرتےاور ہماری مدد کیا کرتے تھے ۔
 
اس زمانے میں کئی اسکولوں میں اجتماعی انخلاء اور دیہی علاقوں کےرشتہ داروں کے پاس انخلاءکیا جا رہا تھا۔ میں اس وقت تینما سرکاری اسکول میں تیسری جماعت کی طالبہ تھی، جبکہ میری بڑی  بہن سُومی اے بھی اسی اسکول میں چھٹی جماعت میں پڑھاکرتی تھی۔ ہمارے اسکول کو اجتماعی انخلاء کی غرض سے یُوکی چو کے ایک مندر میں منتقل کردیا گیا اور ہم دونوں بہنیں بھی وہیں آکر رہنے لگیں۔ میری والدہ  اور بڑے  بھائی توشی یُوکی ہرہفتہ ہمیں ملنے آیا کرتے اورہمارے لئے  شکر قندوغیرہ بھی ساتھ لاتے تھے۔ لیکن ہم دونوں بہنیں ابھی بہت چھوٹی تھیں، اور والدین سے الگ ہوکر رہنا ہمارے لئے بڑاتکلیف دہ تھا۔ میری والدہ کہا کرتی تھیں کہ اگرہم مریں گے بھی تو سب ساتھ ہی مریں گے۔ا س لئےمیں ضد کرنے لگی کہ مجھے گھر جاناہے، مجھے واپس  گھر لے چلیں۔اب سوچتی ہوں کہ اگرمیں  اُس دن ضد کرکے گھر واپس نہ آتی توشایدآج میری والدہ اور بھائی سب زندہ ہوتے، کیوں کہ اس صورت میں   ایٹمی  بمبا ری  والے دن  میری ماں اور بھائی ہمیں ملنے کے لیے مندر آئے ہوئے ہوتے ، اور ہمارے ساتھ وہیں ہوتے۔
 
6 اگست کے دِن کی صورتحال
6 اگست کوچونکہ میری اسکول کی چھٹی تھی اسلئے میں اپنی سہیلی کے ساتھ قریب میں گھومنے نکلی ہوئی تھی۔

میں نےB29 جنگی جہازوں کواوپرآسمان میں  پرواز کرتے دیکھا جو اپنے پیچھے لمبی دھوئیں کی لکیریں چھوڑتے جا رہے تھے،تو میں نے فوراً اپنے دونوں ہاتھوں سے آنکھوں اور کانوں کو ڈھانپ لیا۔میں نے لاشعوری طور پر ایسا کیا ، کیونکہ اس زمانے میں ہمیں یہی سکھایا گیاتھا ۔ اور اسی لیے میں نے وہ جھماکا نہیں دیکھا ۔

ایٹم بم گرتے وقت میں خوش قسمتی سے ایک گھرکے چھجے کے نیچے کھڑی تھی۔ دیوار کے سا ئےمیں ہونے کی وجہ سے نہ تو میں زخمی ہوئی اور نہ ہی  گرمی کی شدت  کو محسوس کیا۔ میری سہیلی کو  بھی صرف سر میں معمولی سا زخم آیا ۔ ہم رینگتے ہوئے ایک دراڑ  سے باہر نکل کر گھر کی طرف دوڑے۔

میں گھرپہنچی تو ایٹمی بمباری  میں زخمی ماں نے مجھے سنبھالا۔اس روز میری ماں راشن میں ملنے والے چاول لینے گھر سےباہر گئی ہوئی تھیں، گھرکوواپسی کے دوران راستے میں ایٹمی بمباری ہوگئی تھی ۔ میں جیسے ہی گھر پہنچی تو انہوں نے  جلدی سے ابتدائی طبی امداد والابیگ اٹھایا اور مجھے ساتھ لے کر نکل بھاگیں۔

میں نے اپنے آس پاس دیکھا تو سارے گھرنیست و نابود ہوچکے تھے اور پُل کا جنگلہ بھی جل رہا تھا۔ہم لوگ پُل پار کر کے "کوئی" کی طرف بھاگنے لگے۔ راستے میں ہم نے ایک شخص کو دیکھا جو جل کرسیاہ ہوگیا تھا  اور پانی کیلئے فریاد کر رہا تھا۔  "مجھے پانی دے دو، مجھے پانی چاہئے "۔مگر ہم لوگ اپنی ہی جان بچانے میں تھے اسلئے کچھ نہ  کر پائے۔ مجھے آج بھی اس بات کا افسوس ہے اور سوچتی ہوں کچھ اور نہیں تو کم از کم اس کا  نام ہی پوچھ لیتی۔

بالآخر جب ہم لوگ "کوئی"کےسرکاری اسکول پہنچے تو مجھے احساس ہوا کہ میں تو سارا راستہ ننگے پیر طے کرکے آئی ہوں، اور آج بھی حیران ہوتی ہوں کہ ملبے کے بیچوں بیچ بھاگتے ہوئےمیرے پیر زخمی کیوں نہیں ہوئے۔

اسکول کےسارے کمرے اور راہداریاںزخمیوں سےبھرےہوئےتھے۔ وہاں میری والدہ کاعلاج ہوا۔ انکی  ٹانگوں،ہاتھوں اور پیٹھ پرجلنے کے  زخم آئے تھے، اور ساتھ ہی ان کا چہرہ بھی تھوڑا سا جل گیا تھا۔ ان کے سر پر  ایک گہرا گھاؤ بھی  تھا۔ میری ماں کےعلاج کیلئے محض ذرا سی دوا ہی لگائی گئی تھی ۔ لیکن اب یاد کرتی ہوں تو  یہ بھی واضح  نہیں کہ انہیں دو ا لگائی بھی گئی تھی یا نہیں۔

پھرمیں اپنی و الدہ کے ساتھ اوگاواچی ماچی میں بنائے گئے پناہ گزین  کیمپ کی طرف چلی گئی ۔جب ہم کیمپ میں پہنچے تو آسمان سے سیاہ بارش ہونے لگی ۔ہم نے قریب  پڑی ایک جستی  شیٹ کی مدد سے خود کو بارش سے بچایا۔ تھوڑی دیر بعد جب بارش تھم گئی تو میرا بڑا بھائی توشی یُوکی بھی وہاں پہنچ گیا۔
 
ایٹمی بمباری کے وقت میرا بھائی ما تسوموتو انڈسٹریل اسکول میں سال  دوم کا طالبِ علم تھا۔اور طلباء لام بندی کے تحت اُجینا کے ساحل کے قریب کاناواجیما جزیرے پر موجود ایک فیکٹری میں تعینات تھا ۔ حملےکے  وقت وہ اپنے دوستوں کے ساتھ وہیں جا رہا تھا اور وہ لوگ ابھی می یُوکی پل کے قریب ہی پہنچے تھے کہ ایٹمی بمباری ہوئی۔ ا س کے بعد وہ فیکٹری جانے کے بجائے ہماری فکر میں واپس گھر کی طرف دوڑا۔ جس جگہ ہیروشیما الیکٹرک ریلوے کا  ہیڈکواٹرتھا وہاں راستےکے دونوں اطراف آگ لگی ہوئی تھی، اسلئے وہاں سے  گذرنا بالکل ناممکن تھا۔ اس نے اپنا رُخ شو دو  مڈل اسکول کی جانب کر لیا، اور موتویاسو دریا  اور اوتا دریا کو کشتی سے پار کرکے ایک پُل سے گذر کر بالآخر دوپہر کے وقت کانون ماچی پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔گھر کی طرف آتے ہوئے راستے میں ایک کنڈرگارٹن کے ملبے میں دبے  ہوئے بچوں نے مددکیلئے پکارا  لیکن وہ ان کی مدد نہیں کرپایا،کیوں کہ وہ جلد از جلد گھر  پہنچکر  ہماری خیر خیریت معلوم  کرنے کی فکرمیں تھا ۔بعد میں اس نے  بتایا کہ ان کی مدد نہ کرسکنے کااسے بہت افسوس ہوا ۔

بعد میں اس نے بتایا کہ جب وہ گھر کے نزدیک  پہنچا تو اس نے دیکھا کہ آگ کی لپٹیں ہمارے گھر کی جانب بڑھ رہی تھیں، اس نے جلدی سے پانی کی بالٹی کی مدد سے آگ بجھادی۔ چونکہ  گھر میں  کوئی نہیں تھا   تووہ  ہماری تلاش میں اوگاواچی ماچی چلا آیااوربخیرو عافیت وہاں ہم سے آملا ۔
 
میری والدہ نے بتایا کہ 6 اگست کی صبح  میری بڑ ی  بہن اسکول نہیں  جانا  چاہتی تھی ۔ لیکن میری  ماں نہیں چاہتی تھیں کہ میری بہن غیرحاضر رہے کیوں کہ ان کی خواہش تھی کہ وہ یاماناکا گرلز ہائی اسکول میں داخلہ لے۔ انہوں نے معمول کےمطابق اس دن بھی میری بہن کو اسکو ل بھیج دیا، لیکن پھر وہ کبھی لوٹ کر گھر نہیں آئی۔
 
7 اگست کے بعد کی  صورتحال
دوسرے دن  میرا بھائی  بہن کی تلاش میں تینما اسکول روانہ ہوگیا۔ وہاں اسے معلوم ہوا کے ایٹمی بمباری  کے وقت میری بہن پرنسپل کے دفتر میں صفائی کر رہی تھی۔ میرے بھائی نےاس  جگہ ملبے میں اسے  بہت تلاش کیا، لیکن اسکول کی عمارت مکمل طور سے ڈھے چکی تھی اور آگ نے ہر چیز کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا تھاجس میں اسکا کوئی سراغ نہ مل سکا ۔

میں امی اور میرا بھائی ہم تینوں، دو تین دن  تک اوگاواچی ماچی کے پناہ گزیں کیمپ میں رہے، لیکن میری امی میری بہن کے بارے میں بہت فکرمند تھیں اسلئے  ہم لوگ گھر واپس چل دئے ۔

گھر پہنچنے کے بعد میری والدہ بستر کی ہو کر رہ گئیں۔ "کوئی"کے اسکول میں دوا لگائے جانے کے علاوہ، ان کا کوئی علاج نہیں ہوا تھا ۔

خوش قسمتی سے ہمارا گھرآتشزدگی سے محفوظ رہا تھا، اسلئے  ہماری عدم موجودگی میں پڑوسی  ہمارے گھر سے سارے بستر وغیرہ اٹھا  کر لے جاچکے تھےاور استعمال کر رہے تھے ۔ لیکن جب ہماری چچی  اومویا سو ئیکو   کو صورتحال کا علم ہوا  تو وہ ہم پر بہت ناراض ہوئیں اور کہنے لگیں کہ "تم لوگوں کو کیا ہواہے؟ تم نے اپنے سارے بستر وغیرہ پڑوسیوں میں بانٹ دیئے ہیں اور اپنی ماں کیلئے کچھ بھی نہیں رکھا"۔ میرا بھائی چونکہ ایک انڈسٹریل اسکول میں محض دوسرے سال کا  طالب علم تھا اور میں اپنے اسکول کے تیسرے سال کی طالبہ، یعنی آج کے حساب سے سمجھ لیں تو ہم مڈل اسکول  اورپرائمری اسکول کے بچے تھے ،اسلئے ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے۔چچی نے ہمارے گھر آنے کے بعد  امی کی تیمار داری  کے ساتھ ساتھ ہماری دیکھ بھال کی بھی ذمہ داری سنبھال لی۔ میری چچی کے شوہر شیگے او میرے ابو کے چھوٹے بھائی تھے۔ وہ اس وقت  یاماگُوچی کے فوجی یونٹ میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ حملے کے دو دن بعد وہ اپنی بیوی اور بیٹی نوبواے کی فکر میں ہیروشیما لوٹ آئے۔ اس موقع پر اگر چچا اور چچی ہمارے ساتھ نہ ہوتے تو ہم لوگوں کا پتہ نہیں کیا ہوتا، کیوں کہ امی بیمارتھیں اور ہم دونوں بچے تھے۔
 
میری ماں خوش تھیں کے ان کے چہرے  کا زخم تیزی سے ٹھیک ہو رہا  تھا، لیکن ان کی پیٹھ پر موجود جلنے والاشدید زخم بالکل بھی ٹھیک نہیں ہو رہا تھا۔ جب مجھے لگا کے ان کی پشت کے جلے ہوئے زخم سوکھ کر  ٹھیک ہو رہے  ہیں، لیکن اچانک انکی پشت کی کھال مکمل طور سے اُتر گئی،  پھر جو دیکھا تو ان کی کھال کے نیچے بےشمار کیڑے پڑے ہوئے تھے۔ یہ کیڑےان کی پوری پُشت کے اندر پھیل چکے تھے جبکہ ہمیں ان کا ذرا بھی علم نہ تھا۔ ان سارے کیڑوں کو نکالنا قطعی ناممکن تھا۔ میری امی مچھردانی میں سویا کرتی تھیں اور ہم دونوں بہن بھائی نے اپنے بستر امی کے ساتھ لگا دیئے تھے۔ میں جب بھی امی کے قریب لیٹا کرتی تو میرے لئے کیڑوں کی بدبُو سے سونا مشکل ہوجاتا۔

حالانکہ میری ماں کے زخم بڑی شدید نوعیت کے تھے لیکن ہم نے کبھی بھی ان کی زبان سے حرف شکایت نہیں سنا۔ مثلاً "مجھے بہت تکلیف ہورہی  ہے" یا "مجھےبہت کھجلی ہو رہی ہے" وغیرہ اور نہ ہی پانی کی زیادہ طلب کرتی تھیں۔وہ صرف آڑو مانگا کر تی  تھیں، اور کہا کرتی تھیں "میں آڑو کھانا چاہتی ہوں، میں آڑو کھانا چاہتی ہوں "۔ پھر میری چچی ان کےلئے  انوکوچی جاکر کچھ آڑو خرید لائیں۔اب سوچتی ہوں تو لگتا ہے کہ شاید  میری والدہ کو پیاس لگی ہوتی ہوگی۔
 
4 ستمبر کی صبح  کو میری ماں کا انتقال ہوگیا۔ مجھے اور میرے بھائی کو پتہ بھی نہ چلا کہ ہماری ماں اب ہم میں نہیں  رہی۔ ہمیں تو اس وقت معلوم ہوا جب میری چچی نےبتایا کہ  تمہاری ماں اب اس دنیا میں نہیں رہی ۔ اب سوچتی ہوں تو حیرانی ہوتی ہے کہ پھٹے ہوئے سر اور اتنی شدید بیماری میں وہ کس طرح ایک مہینے تک زندہ رہیں۔ جب  فوجی ایک ٹرک میں زخمیوں کو پناہ گاہ لے جا رہے تھے تو  میری ماں نے جانے سے انکار کردیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک انہیں  بیٹی کا پتہ نہیں چلتا وہ  ہر گز  گھرسے نہیں جائیں گی۔ ایک دوسرا شخص جو میری ماں جتنا ہی زخمی تھا، مضافاتی پناہ گاہ میں درست طریقے سے علاج ہونے پر بالکل صحت مند گیا تھا۔میری ماں میری بہن کے بارے میں بہت فکرمند تھیں، اور جب تک زندہ رہیں اُنہیں یہی اُمید رہی کہ وہ ایک دن اپنی بیٹی کو ضرور دیکھیں گی۔
ہم سب ان کی نعش کو "کوسیکان" کے میدان میں لےجا کر اسی دن جلا دیا جس دِن ان کا انتقال ہوا تھا۔ ان کی موت سےبھی میرے اندر نہ کوئی دُکھ تھا اورنہ  ہی میرے کوئی آنسو نکلے ۔ شاید میرے جذبات بالکل سُن ہوچکے تھے۔ اس دن بارش بھی ہوگئی تھی، اس لئے  میری ماں کی نعش پوری طرح جل کر راکھ بھی نہ بن پائی۔

شہرکی ساری عمارتیں زمیں بوس ہوچکی تھیں سب کچھ جل کراجاڑمیدان بن گیاتھا، اور ہیروشیما اسٹیشن اور نینوشیما تو ہمارے گھر سے نظر آنے لگے تھے ۔جدھر دیکھو  ہر جگہ لاشیں پڑی تھیں۔ دریامیں بہتی لاشوں کو فوجی نکال نکال کر نذرِآتش کر رہے تھے۔ایسی لاشیں بھی تھیں جو ایک مہینےسے بھی زائد عرصہ تک ایسے ہی زمین پر پڑی رہیں اور ہم بڑ ےآرام سے انکے قریب سے آتےجاتےرہے۔ ان دنوں ہمیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ایٹم بم یا تابکاری کیا ہوتی ہے اور ہمیں کیا کھانا چاہیئے اور کیا نہیں۔ پھر کھانے کی چیزوں کی قلت بھی تھی اسلئے  ہم بے دھڑک تابکاری سے متاثرہ غذا استعمال کر تے رہے، جن میں دوسرے لوگوں کے کھیتوں میں اُگنے والے شکر قند اور تابکاری سے آلودہ زمین میں مدفون چاول بھی شامل تھے۔
 
ایٹمی بمباری  کے بعد کی زندگی
ماں کے انتقال کے بعد اپنے رشتے داروں پر انحصارکرتے ہوئے  ہم لوگ  جلد ہی انکے پاس  مِدوری ای گاؤں چلے گئے اور وہیں ان کے گودام میں رہنے لگے۔ ہمارے دادا اور دادی پہلے ہی وہاں پہنچ چکے تھے۔ ایٹمی بمباری  کے وقت ہمارے دادا  اومویا تومے کیچی اور ہماری دادی ماتسونو  اپنے گھر کے کمرے میں محفوظ رہے تھے۔ تاہم، مِدوری ای گاؤں پہنچنے کے بعد ہمارےدادا جو پہلے بالکل ٹھیک تھے اچانک بیمار پڑ گئے اور ہماری امی کے انتقال کے پانچویں روز وہ بھی چل بسے۔ ہیروسےموتوماچی میں ہمارے دادا، دادی کے ساتھ رہنے والے چچا  شوسو  جو ایٹمی حملے کے وقت وہ گھر کے دروازے پر موجود تھے ان کے بارے میں تاحال کوئی اطلاع نہیں ہے۔

مِدوری ای گاؤں میں زندگی ہماری اب تک کی زندگی سے بہت مختلف تھی اسلئےبہت سی باتیں  ہمیں بالکل  سمجھ میں نہیں آتی تھیں۔ ہم  ایک سال تک مِدوری ای گاؤں کے اسکول میں  پڑھتے رہے اور پھر واپس ہیروسے  آگئے۔ ہم سب نے مل کر تھوڑی سی  زمین ہموار کی اور اس پر رہنے کیلئے ایک جھونپڑی بنا لی ۔ چچا اور چچی ہم سے بالکل اپنے بچوں کا ساسلوک کرتے تھے۔ یہی سبب تھا کہ والدین کے انتقال کے باوجود بھی میں نے خود کو کبھی تنہا محسوس نہیں کیا۔
 
میں جوں جوں بڑی ہوتی گئی  مجھے اپنے والدین کی زیادہ یاد آنے لگی  ۔ میری چچا زاد بہن کو شروع سے ہی ایک پرائیویٹ استاد ٹیوشن پڑھایا کرتا تھا۔ ہم چونکہ بالکل سگی بہنوں کی طرح  رہا کرتے تھے اس لئے  مجھے اس پر رشک بھی ہونے لگا تھا۔اور میں خود کو تنہا محسوس کرنے لگی تھی۔ میں اپنی شادی تک اپنے چچا کے گھر ہی  رہی۔ میرے چچااپنے گھر میں ہی فرنیچربنایا کرتے تھے، اور میں ان کے کاروبار کاحساب کتاب رکھا کرتی تھی۔
 
شادی اور بیماری
اُن دنوں اکثر لوگ اپنا ایٹمی بمباری  سے متاثر ہونا چھپایا کرتے تھے۔خصوصا عورتوں کیلئے  شادی کا مسئلہ ہوتا تھا اسلئے وہ ایٹمی بمباری سے  متاثر ہ افراد کیلئے مخصوص صحت کارڈکی درخواست بھی نہیں دیتی تھیں۔ یہ صحت کارڈ  ابھی تو میرے بہت کام آرہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایٹمی بمباری سے  متاثر ہ افراد کے صحت کارڈکا اجراءشروع ہونے پر، اس کیلئے درخواست دینے سےپہلے میں بھی بہت ہچکچاہٹ کاشکار تھی۔شادی کا تو میں نے سوچ رکھا تھا کہ  چچاچچی جس کو بھی  میرے لئے  پسند کریں گے اس سے کرلوں گی۔اس طرح میں نے طےکرائی جانے والی  شادی کی، اوریہ  میری خوش قسمتی تھی کہ میرے ہونے والے شوہر کو میرے ایٹمی تابکاری سے متاثرہ ہونے یا نہ ہونے کی کوئی پرواہ نہ تھی ۔

شادی  تو ہوگئی لیکن پھر  مجھےیہ فکرہونے لگی کہ میرے ہونے والے بچوں کو کوئی مسئلہ ہوگا یا نہیں ۔مجھے تھائرائڈ کا کینسر ہوگیا۔ میرے بڑے بھائی اور کزن کو بھی کینسر ہوگیاتھا ۔ میری بیٹی کے  کان میں رسولی ہے۔  مجھے شک ہے کہ میری بیٹی کی رسولی کا تعلق شاید ایٹمی تابکاری  سےہے۔
 
امن کی آس
میں اکثر اپنے بچوں کو ایٹمی بمباری  کےمیرے تجربے کی  داستان سنایا کرتی ہوں۔ میں نے ان کو امن یادگار میوزیم بھی دکھایا ہے اور ایٹم بم گرائے جانے کی صورتحال کے بارے میں بھی  انہیں اکثر بتاتی رہتی  ہوں۔

پہلے توروزمرہ   زندگی ہی اتنی مصروف تھی کہ میرے پاس اپنے خاندان والوں کی قبروں پر جانے تک کاوقت نہ تھا، لیکن اب اکثرجایا کرتی ہوں اورسب سےکچھ باتیں کرکے گھرواپس آجاتی ہوں۔اگر میری ماں زندہ ہوتیں تومیں ان کی خدمت کرتی اور انکا  خیال رکھتی۔اس لئے میں  جب بھی اپنی  ماں کی عمرکے کسی شخص سےملتی ہوں تومیں چاہتی ہوں کہ میں جو خدمت اپنی ماں کی نہیں کر سکی وہ جتنی مجھ سے ہوسکے ان کیلئے کروں ۔

میں شکرکرتی ہوں کہ جہاں ایٹمی بمباری میں لوگوں کی بڑی تعدادنے اپنی زندگیاں قربان کر دیں،میں اسطرح  آج تک صحتمند اور زندہ رہ سکی۔ اپنی آنجہانی والدہ کے بارے میں سوچتی ہوں تومیری  خواہش ہوتی ہےکہ میں اپنے بچوں کیلئے صحت کے ساتھ زیادہ لمبی عمر تک زندہ رہوں۔
 
 

جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ اس ویب سائٹ پر موجود تصاویر اور مضامین کی غیر مجاز نقل کرنے کی سختی سے ممانعت ہے۔
ہوم پر واپس لوٹیںTop of page
Copyright(c) Hiroshima National Peace Memorial Hall for the Atomic Bomb Victims
Copyright(c) Nagasaki National Peace Memorial Hall for the Atomic Bomb Victims
جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ اس ویب سائٹ پر موجود تصاویر اور مضامین کی غیر مجاز نقل کرنے کی سختی سے ممانعت ہے۔
初めての方へ個人情報保護方針
日本語 英語 ハングル語 中国語 その他の言語