国立広島・長崎原爆死没者追悼平和祈念館 平和情報ネットワーク GLOBAL NETWORK JapaneaseEnglish
 
Select a language / اردو (Urdu・ウルドゥ語) / Memoirs (ایٹمی بم کے متاثرین کی یادداشتیں پڑھیں)
 
ان گرمیوں کا ناقابل فراموش واقعہ 
شموتاکے چیوکو(SHIMOTAKE Chiyoko) 
جنس خاتون  بمباری کے وقت عمر 24 
تحریر کا سال 2009 
بمباری کے وقت محل وقوع ہیروشیما 
Hall site ہیروشیما قومی امن یادگاری ہال برائے متاثرین ایٹمی بمباری 
 جنگ کے دوران  زندگی
میں1921 میں  ہیروشیما پری فیکچرکےعلاقے  یاماگاتا  میں واقع، تونوگا  گاؤںمیں پیداہوئی۔بعد میں اس گاؤں کا نام تبدیل کر کے   کاکے چو رکھا گیا ، اور آجکل اسےآکی اوتا چو کے نام سے جانا جاتا ہے۔

میں،1940 یا1941 میں اپنے والدین کے گھر کو  چھوڑ کر   پھولوں کی سجاوٹ، چائے کی تقریب اور آداب و  اطوار  کی تربیت اور  اسباق لینے کے لئے تسوتسو گاگاؤں (موجودہ  آکی اوتا  چو ) چلی آئی اور  اپنی استانی  کے گھر  پر ہی رہنے لگی۔یہ  استانی  اپنی قابلیت اور سخت گیری کیلئے  بہت مشہور تھیں۔  مجھے ان سے سیکھی ہوئی باتوں سے آگے کی زندگی میں بہت مدد ملی۔ کئی سال بعد ان کا انتقال ہونے پر  تسو تسو گا گاؤں کے تعلیمی مہتم کے کہنے پر اپنی  استانی کی جگہ میں نے  تعلیم دینا شروع کی، اور یوں میرے لئے  ان آداب کو سکھانے کے عوض آمدنی کا ایک ذریعہ بھی پیدا ہوگیا ۔

اسی حوالے سے میری   تونوگا    گاؤں کےسر براہ کے بھتیجے    کاواموتو  ہسا شی  سے  واقفیت  ہوئی، اور میں نےمئی 1944 میں  اس سے شادی  کر لی۔ میرے والد تونوگا گاؤں کے دفتر میں کام کرتے تھے، گویا ہمارا اس گاؤں سے کوئی بندھن تھا۔ شادی کے بعد میں نے  اپنے شوہر کے ساتھ اس کے والدین کے گھر  میں رہنا شروع کیا۔ میرے سسر کا نام کامے  سا برو  اور ساس کا  نام  سیکی یو تھا۔ یہ گھر جس میں ہم چاروں  افراد رہتے تھے ، ہیروشیما شہر  کے علاقے ہیجی یاما ہون ماچی میں  سرومی پُل کے نزدیک واقع تھا۔ میرے شوہر گھڑیوں کا  کاروبار  کرتے تھے ، لیکن انہیں  یہ کاروبارختم کرکے  دوسری جگہ  ملازمت  کرنی پڑی، کیوں کہ اس  گاؤں میں اس جیسی اور دکانیں بھی تھیں  جو کہ ضرورت سے زائدہوگئی تھیں۔یہ مشکل زمانہ جنگ  کا زمانہ تھا  جب ایک ہی گھر میں گھر  گرہستی کے واسطے دو عورتوں کی موجودگی زائد خیال کی جاتی تھی،اور  خواتین کو بھی باہر نکل کر کام کرنے  کیلئے  کہا جاتا تھا۔ اسلئے میں نے بھی شادی کے اگلے مہینے سے    کاسو می چو   کے  بری  فوج کے اسلحہ خانہ میں کام  شروع کیا، جہاں میرے سُسر بھی کام کیا کرتے تھے۔
 
ایٹمی حملے سے قبل
میرے سُسرالیوں کا آبائی گاؤں بھی تونوگا تھا۔ میری ساس 3  اگست کو گاؤں جانے کا ارادہ رکھتی تھیں، تاہم اس دن صبح کو انہوں نے اچانک اپنا ارادہ تبدیل کردیا اور مجھ سے کہا۔ "پہلے تم چلی جاؤ، میں اوبون تہوار  کے موقع پر آؤں گی اور  دس دن تک گاؤں میں رہوں گی"۔  میں 3  اگست سے 5 اگست تک اپنے والدین کے ہاں تونوگا گاؤں میں قیام  کرنے کے واسطے  روانہ ہوگئی۔ جب میں سرومی پُل پار کر رہی تھی تو پیچھے سے میری ساس بھی مجھ تک  پہنچیں، اور ایک بہت اچھی دھوپ کی چھتری میرے حوالے کرتے ہوئے کہنے لگیں کہ "اس کو اپنے والدین کے گھر رکھوا دینا، کیوں کہ کچھ معلوم نہیں ہیروشیما پر ہوائی حملوں میں اسکا  کیاحال ہوجائے"۔ اپنی بات جاری رکھتے انہوں نے کہا " اپنے والدین کو میرا سلام کہنا اور 5  اگست کو ضرور واپس آجانا"۔ ا س لمحہ مجھے اس بات کا بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ میری ساس سے میری آخری ملاقات ہے۔ لڑکی جب اپنے میکے کو جاتی ہے  تو اسکی  خواہش ہوتی ہے  کہ وہ  اپنے قیام کو طول دے کر زیادہ سے زیادہ آرام کرلے ،  اسلئے  میں نے سوچا  کہ پانچ  اگست کو رات کی آخری گاڑی سےسسرال  واپس جاؤنگی۔ لیکن جب میں  واپسی کے لئے  آخری گاڑی میں سوار ہونے لگی تو  انہوں نے  مجھے بٹھانے سے انکار  کردیا اور  میں مجبوراً  واپس  اپنے والدین کے گھر آگئی۔ جب میرے والد کو معلوم ہوا کہ میں حسبِ وعدہ  واپس اپنے گھرجانے  نہیں پائی تو وہ سخت ناراض ہوئے، اور کہنے لگے "وعدہ نہ نبھانا  بڑی بری بات ہے ۔ہم  کاواموتو  فیملی  کو کیا جواب دیں گے ؟"۔  ساتھ ہی انہوں نے کاواموتو  والوں کو ایک ٹیلیگرام  دیاکہ "  میں  چیوکو  کو کل بہرصورت واپس بھیج دوں گا"۔
 
6  سے  9  اگست تک
اگلے دن (6 اگست کو)جبکہ مجھے صبح سویرے روانہ ہوجانا  چاہئےتھاکیوں کہ وعدےکادن گزر چکا تھا، لیکن میں جانے میں سُستی کر رہی تھی ۔ اگر اس دن میں صبح سویرے  روانہ ہوجاتی تو ایٹمی بمباری کے وقت اسکے  مرکزی  مقام سے زیادہ نزدیک ہوتی۔ جب  8:15 کا وقت ہوا مجھے لگا کہ جیسے روشنی کا جھماکہ ہوا  اوراسکے بعد  زمین لرزا دینے والا  دھماکا ہوا ۔  اسی دوران میں نے  بہت سارے  پھٹے اور جلے ہوئے کاغذہوا میں  تیرتے دیکھے  جن پر "ہیروشیما شہر"بھی  لکھا ہوا تھا۔اس سے  مجھے کچھ اندازہ ہوا  کہ ہیروشیما میں ضرور کوئی گڑبڑ  ہوئی ہے ۔ذرا  دیرمیں یہ اطلاع بھی مل گئی کہ  ہیروشیما میں ایسی حالت  نہیں کہ عورتیں اور  بچےوہاں جاسکیں، اسلئے  میرے والد خود ہی حالات معلوم کرنے کے لیے پیدل ہیروشیما چل دئے ۔ پہلے وہ ہیجی یاماہون ماچی میں میرے سُسرالی گھر پہنچے جہاں ہم لوگ رہا کرتے تھے۔  وہاں انہوں نے ہر چیز کو  جلا ہوا پایا۔ لیکن وہاں جلی ہوئی باقیات  میں انہیں ایک کاغذنظر آگیا  جس پر لکھا تھا کہ "ہم اسلحہ خانےکے ہاسٹل میں پناہ لئے ہوئے ہیں "۔ وہ وہاں چلے گئے جہاں  ان کی ملاقات میرے شوہر اور اُس کے والدین سے ہوئی۔ میری ساس بری طرح جھلس چکی تھیں اور موت کے دروازے پر دستک دے رہی تھیں۔  میرے شوہر اور اس کے والدین کے حالات معلوم کرنے کے بعد میرے والد اپنے بھائی کو دیکھنے ہیگاشی ہاکوشیماچو  چلے گئے۔ میرے چچا کا گھر مکمل طور سے تباہ ہوچکا تھا،  اور  وہ"کوئی "ُعلاقےکے قرب و جوار  میں پناہ  لئے ہوئے تھے ۔ میرا چچازاد بھائی جو طلبہ لام بندی  کے تحت عمارتوں کے انخلاء پر مامور  تھا،وہ   مارا جا چکا تھا۔

میرے والد ادھر ادھر  پیدل گھوم پھر کر واپس تونوگا  گاؤں  پہنچے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ میرا شوہر اپنے والدین سمیت اسلحہ خانے میں پناہ لئے ہوئے ہے تو  میں 8 اگست کی شام بس کےذریعہ روانہ ہوئی اور پھر "کابےلائن"والی  ریل گاڑی سے  ہیروشیما میں داخل ہوئی ۔ راستے میں دیکھاکہ  کابے اسٹیشن کے سامنےچوک  میں بہت سے زخمی لوگوں کو لٹایا گیاہے ، جو سانس بھی  بہت مشکل سے لے پا رہے تھے۔ان کے سر کے نیچےتکیہ کی جگہ ڈبےدھرے تھے ۔ اپنے گھر والوں کو  تلاش کرنے والے  بہت سے لوگ اپنے پیاروں کے نام پکاررہے تھے ، لیکن ان میں سے کسی میں بھی جواب دینے کی سکت نہ تھی۔ اتنے زیادہ زخمی لوگوں  کو دیکھ اپنے گھر والوں کیلئے  میری تشویش بڑھ گئی ۔

متاکی اسٹیشن کے قریب ریل گاڑی رک گئی اور  مسافروں کواتار دیا گیا ۔ میں اپنے ساتھ چاول اور خشک آلوچے وغیرہ بھی اٹھائے ہوئے تھی جو میکے سے چلتے وقت ساتھ لئےتھے ۔  میں وہاں سے اسلحہ  خانے کی طرف روانہ ہوگئی، لیکن  تاحدِنظر جلے ہوئے میدان میں مجھے کچھ پتا نہیں چل رہا تھا کہ کس طرف کو جاؤں۔ایسی کوئی عمارت نظر نہیں آ رہی تھی جس  سے منزل کی رہنمائی ہوسکےاسلئے  میں بھٹکتی پھر رہی تھی، پھرمجھے  آگ دکھائی  دی ۔ میں نے سوچا کہ وہاں لوگ بھی ہوں گے جن سے  راستہ معلوم کر سکوں گی۔ قریب جاکر دیکھا تو معلوم ہوا کہ آگ سے  نعشیں جل رہی ہیں۔  پُل کےاوپر ، راستوں کے کنارے یا چاولوں کے کھیت ہر جگہ نعشیں جل رہی تھیں ۔ جلتی ہوئی نعشیں  دیکھ کر بھی میں کچھ محسوس نہیں کر رہی تھی اور نہ ہی ان کی بو کا احساس ہو رہا تھا۔ ایسا لگتاتھا کہ میرے جذبات واحساسات مردہ  ہو گئے تھے۔

بالآخر9 اگست رات 3 بجے میں اسلحہ خانےکے ہاسٹل  پہنچ گئی۔ میری ساس دم توڑچکی تھیں۔انکی  نعش وہیں موجود تھی کیوں کہ ان کا چند گھنٹے پہلے ہی انتقال ہوا تھا۔  ایٹمی بمباری  کے وقت میری ساس کھیت میں نکلی ہوئی تھیں ، اس لئے انکا پورا جسم جھلس گیا تھا ، انکے چہرے کا نچلا حصہ اور چھاتی راکھ ہو چکے تھے۔دیکھنے میں انکی بہت افسوسناک حالت تھی۔ میرے سُسر نے بتایا کہ وہ مرنے تک مسلسل کراہ رہی تھیں اور  جب  کراہنے کی آواز بند ہوئی  تو موم بتی جلاکر دیکھا تو انکی روح قفس عنصر ی سے پرواز کر چکی تھی۔ دوسرے دن میرے سُسر نے لکڑی کا ایک ڈبہ بنا کر  میری ساس کو اس میں لٹایا اورشکرقند  کے کھیت میں نظرِ آتش کردیا۔
 
میرے شوہر کی موت
ایٹمی بمباری کے وقت  میرے شوہر گھرکے اندر  تھے، اس لیے وہ جلنے سے محفوظ رہے ۔ ظاہری طورپر انہیں کوئی زخم بھی نہ لگے تھے ۔ اپنی ماں کی چیخ وپکار سُن کر وہ ان کو بچانے کے لئے باہر کھیت کی طرف بھاگے تھے۔

15 اگست کو  میں صبح پانچ بجے بیدار ہوگئی ۔ میرے شوہر نے مجھے کہا کہ اتنا جلدی اٹھنے کی کیا ضرورت ہے ، لیکن   میں نے سوچا کہ آج میری ساس کے انتقال کو ساتواں دن ہے ،اسلئے انکی روح کو آرام پہنچانے کے لئے  "دانگو" بنانے چاہئیں۔اسکے علاوہ ہم تینوں کےکھانےکے لئے دلیابھی بنالیا ۔لیکن جب میں نے اپنے شوہر کو دلیا کھلانا چاہا تو  اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔   وہ  اپنے والد کے ساتھ ہی  تین  چٹائیوں والےچھوٹے سے کمرے میں  لیٹا ہوا تھا۔ وہ اس طرح ہم سے جدا ہوا کہ اس کے ساتھ لیٹے ہوئے باپ کو بھی پتا نہ چل سکا۔ میرے شوہر کی نعش پر مکھیاںآنا شروع ہوگئی تھیں  اس لئے   نعش کو جلد از جلد جلانےکے خیال سےہم  نےاسکی موت کی اطلاع 15 اگست  کےبجائےایک دن قبل یعنی  14اگست  لکھوائی ۔ یوں اسی دن اس کو جلایا جاسکا۔اس موقع پر بھی  میرے سُسر نے لکڑی کا ڈبہ بنایا، اور اس میں میرے شوہر کو لٹا کر  نذرِآتش کیا ۔ میری  ساس کی چتاکو آگ دِکھاتے وقت میرے سُسر کا غم اور تکلیف سے برا حال تھا ، اس لئے  میرے شوہر کی نعش کو آگ دِکھانے کیلئے انہوں نے مجھ سے درخواست کی ۔ میرے لئے بھی  ایک ایسے شخص کو آگ لگانا  آسان نہ تھا  جواُسی روز صبح تک سانس لے رہا تھا۔ لیکن یہ کام کئے بغیرچارابھی نہ تھا ۔ جیسے ہی نعش نے آگ پکڑی تو میرےلئے  وہاں ٹھہرنا دشوار ہوگیا۔ میں نے وہاں سے جانے کی کوشش کی تو میری ٹانگیں لرزنے لگیں، میں کھڑی بھی نہیں رہ پارہی تھی اور مجھ سے چلا بھی نہیں جا رہاتھا ۔ مجھے گھر تک گِھسٹ کر جانا پڑا۔ادھر ادھر  ہر جگہ نعشیں جلائی جا رہی تھیں، اس لئے  زمین بھی  گرم ہوگئی  تھی ۔ میری  ہتھیلیاں، گھٹنے  اور پیر جل گئے ۔

دوسرے دِن جب میں اپنے شوہر کی باقیات  لینے گئی تودیکھا کہ دشمن کے جہاز ہمارے سروں پر اُڑ رہے ہیں لیکن ہوائی حملے  کے خطرے کا  سائرن  سنائی نہیں دے رہاتھا ۔یہ بات بڑی عجیب تھی ۔ تھوڑی  دیر کے بعد مجھ معلوم ہوا کہ  جنگ تو ختم ہوچکی ہے۔
 
خودکشی  کےلئے زہر سائنائیڈ
اسلحہ خانے میں موجود تمام عورتوں کو زہر مہیا  کیاگیاتھا ۔  ہمیں کہا گیا تھا کہ اگر امریکی سپاہی ہماری  عصمت دری کرنے کوکوشش کریں تو چونکہ یہ بڑ ی قابل شرم بات ہوتی اسلئےایسا وقت آنے پر ہم یہ زہر  کھا کر خودکشی  کر لیں۔  شوہر کےمرنے پر مجھے لگا کہ اب میرا بھی جینے کا کوئی فائدہ نہیں  اسلئے مجھے یہ  زہر کھا لینا چاہئے۔ جس وقت میرے سُسر اپنے بیٹے کی موت کی اطلاع درج کرانے گئےہوئےتھے ، میں نے زہر کھانے کے لئے  پانی منہ میں لیا تو اسی وقت مجھے خیال آیا کہ  جب میرے سُسر واپس آکرمجھے بھی مردہ پائیں گے تو ان کے دل پر کیاگذرے گی۔ میں نے سوچا کہ  نہیں مجھے مرنا  نہیں چاہئے ، کیونکہ اب اپنے سُسر کی  دیکھ بھال  کی تمام تر ذمہ داری مجھ پرعائد ہوتی ہے ۔ اسلئے میں نےزہر کھانے کا ارادہ  ترک دیا۔ میں نے اپنے لمبے بال کاٹ کر اپنے شوہر کے نعش کے ساتھ یہ کہتے ہوئے جلائے کہ " مجھے معاف کردینا ،میں تمہارا  ساتھ  نہیں دے  سکتی،یہ  میرے جذبات کااظہار ہیں"۔  اگر میرے سُسر نہ ہوتے تو میں زہر کھا کر کب کی مر  چکی ہوتی۔
تونوگا  گاؤں واپس آنے کے بعد بھی میں نے سائنائیڈ زہر  کو سنبھال کر رکھا ہوا تھا۔لیکن میرے ایک بھائی نے  یہ سوچ کر کہ اگر یہ زہر  میرے پاس رہا تو میں کسی بھی وقت کوئی انتہائی قدم اٹھا سکتی ہوں،  اسے مجھ سے لے کر جلادیا۔ اس زہر کے جلنے کی بُو کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔
 
میرے سُسر کی موت
ایٹمی بمباری کے وقت  میرے سُسر اسلحہ  خانے میں تھےاور ان کی پشت  بہت زیادہ جل گئی تھی، اس لئے  وہ پیٹ کے بل سوتے تھے۔ شوہر کے انتقال کے بعد میرا ارادہ تھا کہ اپنے سُسر کے ساتھ تونوگا   گاؤں چلی جاؤں ۔ لیکن 25 اگست کو وہ بھی خاموشی سے موت کی آغوش میں  چلے گئے۔اس وقت میں محض چوبیس برس کی تھی ، ساس ، سُسراور  شوہر کی موت کے بعد میں اکیلی تنہا رہ گئی ۔اس وقت پھر میں نے سوچا کہ اب مجھے   مرہی جانا چاہئے ۔ لیکن ان تینوں کی باقیات  کو انکے  آبائی گاؤں  رشتہ داروں کے پاس لے جانا بھی میری ہی   ذمہ داری تھی،یہ سوچ کرپھر میں مر نہیں سکی  ۔

تونوگا گاؤں کو واپسی
بالآخر 6 ستمبر کو میں اپنے ساس، سُسر اور شوہر کی باقیات  ساتھ لے کر تونوگا گاؤں پہنچ گئی۔ میرے شوہر کے رشتے داروں نے  ان تینوں  افراد کی آخری رسومات اپنےگھر پر ادا کیں۔ میں چونکہ جسمانی اعتبار سے بہت کمزور  تھی اور ان دنوں بیمار بھی تھی اس لئے  میرے والدین اور بھائیوں  نے اچھی طرح میری دیکھ بھال کی۔ مییری آج کی زندگی انہی کی مرہونِ منت ہے۔  ماں باپ اور بھائی بہن کا ہونا بھی بہت بڑی نعمت ہے ۔یہ سب کھاناکھا رہے ہوتے تو میں بھی انکا ساتھ دینے میں کچھ  کھاپی لیتی  تھی۔اس زمانہ  میں خوراک کی قلت ہوا کرتی تھی  ۔کھانےکا دل نہ چاہتے ہوئے بھی    یہ سوچ کر زبردستی کھانا پڑتا تھا کہ نہ کھانا اپنا ہی نقصان کرناہے۔

تونوگا گاؤں واپسی کے بعدمیں کئی مرتبہ اپنے والد کے ساتھ ہیروشیما شہر میں بھی گئی۔ ایک مرتبہ ایک غیرملکی جنگی قیدی  شہر میں میرا  پیچھا کرنے لگا۔پہلے ہی گھوم پھرنے کے بعد میں تھکن سے چور ہورہی تھی ،پھر   ماکُورا زاکی کے سمندری طوفان کے بعدچونکہ  پورے علاقے کے راستے بالکل برباد ہوچکے تھے ، تو ان  پر چلنا دشوار ہورہا تھا ۔ بڑ ی مشکل سےجان بچانے میں کامیاب ہوئی لیکن خوف کی وہ کیفیت مجھے آج بھی یاد ہے۔
 
دوسری شادی
میں نے 1957 میں دوسری شادی کرلی۔ میرے نئے شوہر کے  پہلے سے تین بچے تھے، جن میں سے سب سے چھوٹے بچے کی عمر  2  برس تھی۔  پہلے میرا ارادہ تھا کہ  اس شادی سے انکار کردوں، کیونکہ  مجھے بچے پالنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا ۔ لیکن جب میں نے اس بچے کو دیکھا تو وہ مجھے بے حد معصوم اور  پیارا لگا ۔  میں نے سوچا کہ اب تو  مجھےاپنے  بچے ہونے کی امید بھی نہیں ہے ،اگر میں اس بچے    کی  پرورش کروں تو یہ میرے لئے بھی خوشی کا باعث ہوگا۔یہ سوچ کر میں نے دوسری شادی کیلئے حامی بھرلی۔
 
میری جسمانی  حالت
اب تک میری  جسمانی صحت قابل اطمینان نہیں تھی ، اس سلسلے میں اکثر تشویش لاحق ہوتی رہی تھی۔  میں سب طرح کے  ڈاکٹروں  کو  دکھاتی رہی ہوں۔ دانت نکلوانے کے بعدخون بندنہ ہو نے کی وجہ سے   مقامی ڈینٹسٹ کے پاس جاتی تو وہ  مجھے  کہتا ہے کہ کسی اندرونی طبّی معالج  کو بھی اپنے ساتھ لے کر آؤ۔
کوئی سات برس پہلے 2001 میں  میں اپنی بچہ دانی کے کینسر کا بھی آپریشن کروا چکی ہوں۔یہ کینسر آنتوں تک پھیل چکا تھا، اس لئے  ایک بڑے آپریشن کے ذریعے پچاس سینٹی میٹر تک آنت بھی کاٹنا پڑی۔ بچہ دانی  کینسر  کےمریض کا ٹھیک ہونا بہت مشکل ہوتا ہے،کجا یہ کہ یہ  کینسر آنت تک پھیل چکا تھا۔ اس کے باوجود میرا  ا بچ جانا ایک معجزہ  ہی ہے۔

جس  دوران میں بچہ دانی کے کینسر میں مبتلا  رہی تھی ، مجھے کھانےکا ذائقہ کڑوالگتا تھا ۔ حال ہی میں ویسا ہی کڑوا ذائقہ پھر  محسوس ہونے لگا تو  ہسپتال جانے پر آنتوں کی بندش تشخیص کرتے ہوئے مجھے ہسپتال  میں داخل کرلیاگیا ۔
 
ایٹمی تابکاری کے  اثرات
حالانکہ ایٹم بم کی تابکاری سے میں براہ راست جلی یا جھلسی نہیں تھی  ،لیکن مکھیوں نے میرے ہاتھوں، پیروں اور پیٹھ کی کھال میں  جگہ جگہ  انڈے دے دیئے تھے۔ بعد میں جب  میری کھال میں سے لاروے نکلنے لگے تو مجھے اتنی تکلیف ہوتی تھی جیسےمکھیاںمجھے کاٹ رہی ہوں ۔میری پشت اُن کےنشانات سےبھری ہوئی ہے ا س  لئے  میں کبھی نہانے کےلئے  گرم چشموں یا  عوامی  حمام کو نہیں جاتی ہوں ۔

ہسپتال میں معا ئنہ کے دوران  ڈاکٹر میری پشت کو دیکھنے پر ان نشانات  کے بارے میں  پوچھتے تو میں انہیں بتاتی کہ یہ ایٹمی تابکاری کے سبب ہیں، تو یہ سوال بھی ہوتا  کہ کیا اس وقت میری پشت  ننگی تھی ، لیکن ایسی کوئی بات نہیں تھی۔
 
میں سمجھتی  ہوں کہ امن بہت ضروری ہے۔ میرے خیال میں جنگ ہر گزنہیں ہونی چاہئے۔لڑائی تو گھر میں بھی ہوتو  اچھی بات نہیں ، ہمیں چاہئے کہ لڑائی جھگڑوں کو جنم نہ لینے دیں ۔
 
 

جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ اس ویب سائٹ پر موجود تصاویر اور مضامین کی غیر مجاز نقل کرنے کی سختی سے ممانعت ہے۔
ہوم پر واپس لوٹیںTop of page
Copyright(c) Hiroshima National Peace Memorial Hall for the Atomic Bomb Victims
Copyright(c) Nagasaki National Peace Memorial Hall for the Atomic Bomb Victims
جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ اس ویب سائٹ پر موجود تصاویر اور مضامین کی غیر مجاز نقل کرنے کی سختی سے ممانعت ہے۔
初めての方へ個人情報保護方針
日本語 英語 ハングル語 中国語 その他の言語