国立広島・長崎原爆死没者追悼平和祈念館 平和情報ネットワーク GLOBAL NETWORK JapaneaseEnglish
 
Select a language / اردو (Urdu・ウルドゥ語) / Memoirs (ایٹمی بم کے متاثرین کی یادداشتیں پڑھیں)
 
خوش قسمت رہے تم 
میاچی توشی او(MIYACHI Toshio) 
جنس مرد  بمباری کے وقت عمر 27 
تحریر کا سال 2009 
بمباری کے وقت محل وقوع ہیروشیما 
Hall site ہیروشیما قومی امن یادگاری ہال برائے متاثرین ایٹمی بمباری 
 زندگی اُن دنوں
میراجنم مِتسوگی کے ناکانوشوگاؤںمیں1917میں ہوا۔ یہ علاقہ آج کل اونومیچی شہرکے ان نوشیما ناکانوشوچو  کے طورپرجانا جاتا ہے ۔میرے والد ناکانوشو کےپوسٹ آفس میں ملازم تھے، جبکہ والدہ مکمل طورسے گھریلو خاتون تھیں اور تھوڑی سی زمین بھی کاشت کرلیا کرتی تھیں۔تین بہنوں کے بعد میں پہلابھائی تھا اور میرے پیدائش کے دوسال بعد میرا چھوٹا بھائی  پیدا ہوا۔ 1924 میں میری  چھوٹی بہن پیدا ہوئی لیکن پیدائش کے فوراً بعد انتقال کر گئی اور اس کے کچھ عرصے بعد میری والدہ بھی چل بسیں۔ اس کے بعد سے میں اپنے والد کےساتھ تنہا رہ رہا ہوں۔

1939 میں لازمی فوجی بھرتی کے تحت پانچویں ڈویژن کے فیلڈآرٹلری کی پانچویں رجمنٹ میں میری تعیناتی کر دی گئی۔ اسکواڈلیڈرکےطورپرمیں تین برس تک چین اور ویتنام کےمختلف مقامات پر اپنے فرائض سرانجام دیتا  رہا۔ریٹائرمنٹ کے بعد میں نے اپنے کزن کےماروکاشی ڈپارٹمنٹ اسٹور کی ہکاری شاخ میں ملازمت اختیار کرلی۔ 1943 میں میں اپنی ملازمت تبدیل کرکے میاجی اسٹیل انڈسٹری کی ہکاری شاخ میں ملازم ہو گیا۔اس کو میرے دادا چلایا کرتے تھے۔ملازمت کی تبدیلی کا سبب یہ تھا کہ کمپنی کا ہیڈکواٹر میرے والد کے مکان کے قریب تھا، اور یوں میرے لئے  اُن کی دیکھ بھال کرنانسبتاً آسان تھا۔ملازمت تبدیل کرنے کےساتھ ہی میری  شادی بھی ہوگئی ، اور میرے بڑے بیٹے  کی ولادت اپریل 1944 میں ہوئی۔

اپریل 1945 میں مجھے دوبارہ فوج میں طلب کیا گیا تو میں نے اپنی بیوی اور بچے کوان نو شیما منتقل کردیا۔میری تعیناتی ایک مرتبہ پھر فیلڈآرٹلری کی پانچویں رجمنٹ میں کی گئی تھی۔ تاہم اس مرتبہ مجھےرجمنٹ کے ہیڈکواٹر میں فوجی رجسٹرسنبھالنےکی ذمہ داری دی گئی تھی۔ دفاعی غرض سے بڑے فوجی دستوں کو ملک کے مختلف مقامات کی طرف روانہ کیا جا رہا تھا، اس لئے  ہیڈکواٹر میں فوجیوں کی بہت کم تعداد رہ گئی تھی۔فوجی رجسٹرسنبھالنے والے کی حیثیت میں میرےخصوصی  فرائض میں فوجی رجسٹر(روسٹر)  بنانے کے علاوہ  فوجی جیبی کتب کی تقسیم بھی شامل تھی، لیکن فوجی مشقوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں تھا۔

میرے افسرِاعلیٰ سارجنٹ اوکادا بہت ہی عمدہ اورنفیس انسان تھے۔ان کاتعلق جن سیکی کے گاؤں  "کوباتاکے" سے تھا۔ کوباتاکے کو آجکل جن سیکی کوگین چو  کہا جاتا ہے۔ چونکہ ہم دونوں ایک ہی کمرے میں کام کیا کرتے تھے، اس لئے  وہ میرا بہت خیال رکھاکرتے۔

جون 1945 میں ہمارے فوجی دستے کا نام تبدیل کرکے چوگوکوملٹری ڈسٹرکٹ آرٹلری ریزرو (چوگوکو111یونٹ) رکھا گیا۔ یہ یونٹ ہیروشیما قلعہ کے مغربی طرف تھا۔ قلعے کی حفاظتی خندق کے اطراف میں 4 یا  5 دومنزلہ فوجی بیرکیں بنا کر  چار اسکواڈرن فوج کو  یہاں پر تعینات کردیا گیا تھا۔
 
ایٹمی حملے سے پہلےکی صورتحال
فوج سے سبکدوشی کے بعد، میرا ارادہ تھاکہ اپنی سابقہ نوکری دوبارہ اخیتارکرلوں گا۔ کمپنی والوں کی بھی یہی خواہش تھی۔اور کمپنی کے سربراہ کی جانب سے مجھے یونٹ میں ایک خط بھی موصول ہوا  ،جس میں کہاگیا تھا کہ کمپنی میں ایک اہم میٹنگ منعقد کی جا رہی ہے اور مجھے اس میٹنگ میں شرکت کے لئے  ہکاری شہرآنے کی درخواست کی جاتی ہے ۔لیکن چونکہ یہ کمپنی میرے رشتے داروں کی تھی اور میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے فوجی ساتھی یہ سوچیں کہ میں اس علت کا بہانا بنا کرچھٹی کر رہا ہوں اسلئے میں درخواست جمع کرانے میں ہچکچا رہاتھا ۔ابھی میں اسی ادھیڑبن  میں تھا کہ سارجنٹ اوکادا  نے میرا مسئلہ حل کرتے کہا کہ "تم پریشان مت ہو، تمہارےلئے  چھٹی کا انتظام میں کردیتا ہوں"۔ ان کی خصوصی مہربانی سے مجھےباہر چھٹی پر جانے کا اجازت نامہ مل گیااور میں 5 اگست بہ روزِ اتوار ہکاری شہر میں تھا ۔ طےیہ ہوا تھا کہ میں اگلے دن 6  اگست بروزپیرصبح 9 بجے ہیروشیما پہنچنے والی ریل گاڑی سے واپس  یونٹ میں پہنچ جاؤں گا۔

6اگست کو میں صبح چار بجے ہی بیدار ہوگیا اور ناشتہ سے فارغ ہوکر ہکاری اسٹیشن  سے ریل گاڑی میں بیٹھ گیا۔ 8:15 بجے ایٹم بم گرائےجانے کے وقت ، میرا خیال ہے کہ ریل گاڑی  ایوا کو نی  اسٹیشن سےقریب ہی تھی۔بھاپ کے انجن والی ریل گاڑی کے بے تحاشہ شور کے باعث باہر  کی کوئی آواز بھی اندر سنائی نہیں دے  رہی تھی ، اس لئے ہمیں بم کے دھماکے کی  آواز بھی نہیں آئی ۔اچانک کچھ مسافروں نے خبردار کیا کہ"دھوئیں کا ایک بہت بڑا بادل اشتہاری غبارے کی مانند  ہیروشیما کے اوپر آسمان میں نظر آ رہا ہے"۔ پھر تو  تمام مسافرریل گاڑ ی کی دائیں جانب کی کھڑکیوں سے دیکھنے لگے۔ ریل گاڑی میں کوئی اعلان نہیں ہوا ، اسلئے کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ آخر ہوا کیا ہے۔ ریل گاڑ ی اسی طرح دوڑتی چلی جا رہی تھی، پھر اچانک اتسو کااچی اسٹیشن پر رک گئی ۔ ہم سے پہلے والی ریل گاڑی بھی ابھی وہیں  کھڑی تھی ۔ چونکہ اس سے آگے  کوئی گاڑ ی ہیروشیما کی جانب نہیں جا سکتی تھی اسلئے  تمام مسافروں کو اسی اسٹیشن پراتر  جانے کا کہا گیا ۔اس صورتحال سے میرے لئے مسئلہ بن گیا ، کیوں کہ میں نے وعدہ کیا تھا کہ میں 9 بجے ہیروشیمااسٹیشن  پہنچ کرفوری طورپر  یونٹ میں حاضری دوں گا۔

اتسو کا اچی اسٹیشن کےسامنےبھاپ کے انجن والی ریل  گاڑیوں سے نکلنے والے کالے دھوئیں سے اتنا اندھیرا  چھا گیا تھا گویا رات ہوگئی ہو۔ حتیٰ  کہ وہاں چلنے والے لوگ بھی ایسےلگ رہے تھے جیسے  سائے حرکت کر رہے ہوں۔ لیکن جیسے ہی کالے دھوئیں کے بادل کچھ چھٹےتو میں  نے دیکھا کہ قریب ہی ایک فوجی ٹرک کھڑا تھا۔ جب میں نے ان سے درخوا ست کی کہ مجھےاپنی یو نٹ میں واپس پہنچنا ہے، کیا وہ مجھےہیروشیما قلعہ تک چھوڑسکتے ہیں، تو وہ ایسے بخوشی راضی ہوئے گویا  کہ وہ ابھی ابھی کسی کام سے فارغ ہوئے ہیں۔یہ دو افراد تھے جن میں سے ایک  سارجنٹ اور دوسرا کارپورل تھا۔ ان کے جسم پربظاہر  کوئی زخم بھی نہیں تھااور وہ دونوں بہت صحتمند لگ رہے تھے۔شاید یہ لوگ ایٹم بم کے براہ راست اثرات سے محفوظ رہےتھے۔  اگر وہ ابھی بھی بقید حیات ہیں تو میں  ذاتی طورپر انکا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔
 
ایٹی بمباری  کےبعد شہر  کی صورتحال
مجھے ٹھیک طور سے تو یاد نہیں کہ ان لوگوں نے اتسو کا اچی  سے ہیروشیما جانے کےلئے کون سا راستہ اختیار کیا تھا، تاہم اتنا یادہے کہ ان لوگوں نے دھان کے کھیت سے نکلنے والی ایک سیدھی سڑک اختیار کی تھی۔ راستےمیں ہمیں تباہی سے اپنی جان بچاکر بھاگنے والے لوگ اس طرح مل رہے تھے جیسے بہہ بہہ کر چلے آرہے ہوں ۔ہیروشیما شہرمیں داخل  ہوئے تو  ٹرام کے راستے کے ساتھ ساتھ چلے۔شہر میں کوئی شخص نظر نہ آیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ سارے ہی لوگ یہاں سے جان بچا کر بھا گ چکے ہیں، حتیٰ کہ ہمیں شہر میں کوئی کتا یا بلی تک نظر نہیں آرہے تھے۔

ان لوگوں نے مجھے آئی اوئی پل سے ذرا پہلےاتار دیا، حالانکہ میں نے ان سے ہیروشیما قلعہ تک پہنچانے کی درخواست کی تھی۔ آئی او ئی پل  سے میرا  یونٹ بہت نزدیک تھا، اس لئے  میں نے سوچا کہ میں آسانی سے پیدل پہنچ جاؤں گا۔ لیکن مجھ سے چلاہی نہیں جا رہا تھا کیونکہ راستہ بے حد گرم تھا ۔میں نے  تسموں والے جوتےپہن رکھے تھے جن پر گیٹربھی لپیٹاہوا تھا، لیکن میں ایک میٹر تک بھی نہ چل سکا اور وہیں پُل کے سامنےکھڑا رہ گیا ۔ایک قدم آگے بڑھتاتھا تو ایک قدم ہی واپس پیچھے آنا پڑتا تھا۔
اسی حال میں کوئی  ایک گھنٹہ گزر گیا ۔ پھر اچانک ایسا لگا کہ جیسے  نوکیلی سوئیاں میرے جسم  میں چبھنےلگیں، موسلا دھار بارش شروع ہوگئی تھی۔یہ ایک سیاہ بارش تھی اور پورے علاقے کو یوں بھگو  رہی تھی گویا کسی نے کالا تیل انڈیل دیا ہے۔ لیکن جب میں نےاپنے ہاتھوں سے  چہرہ پونچھا تو مجھے کوئی چکناہٹ محسوس نہیں ہوئی۔ جلتے ہوئے کھلے میدان میں بارش سے بچنے کے لئے کوئی جائے پناہ  نہ تھی، اسلئے  میں  وہیں بھیگتے ہوئے بارش تھمنے کا انتظار کرنے لگا۔

بارش تھمتے ہی ماحول تھوڑی دیر پہلے سے بالکل مختلف ہوگیا،اب ٹھنڈک محسوس ہونے لگی۔ بالکل موسم  خزاں کی طرح لگنے لگا ۔ راستہ جو تھوڑی دیر پہلے گرمی سے جل رہا تھا  اب اتنا ٹھنڈا ہوچکا تھا  کہ اس پر چلنا ممکن ہوگیا  تھا۔

جب میں اپنے یونٹ میں پہنچا تووہاں بیرکوں کی حالت قابِل رحم تھی۔جن جگہوں پر بیرکیں ہواکرتی تھیں، اب وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ تمام عمارتیں نیست ونابود ہو کرراکھ کا ڈھیر بن چکی تھیں، جنہیں بارش اپنے ساتھ بہا کربھی لے جا چکی تھی۔ایسے صفائی ہوئی تھی کہ جیسے وہاں کبھی کچھ تھا ہی نہیں۔

سارجنٹ اوکادا موت کی دہلیز پر تھے، ان کا پورا جسم جھلس چکا تھا، تاہم وہ ابھی سانس لے رہے تھے۔ جلنے کے باعِث  ان کی جسمانی ہیئت  پوری طرح تبدیل ہو  چکی تھی اور میں تو ان کو تب تک  پہچان بھی نہ پایا جب تک انہوں نے مجھ سے بات نہ کی۔ "میاچی!تم خوش قسمت  ہو"۔ پھر میں وہاں سے کچھ دیر کےلئے ہٹ کر دوسری جگہ چلا گیا، لیکن جب شام کو واپس اس جگہ پہنچا توسارجنٹ اوکادا  وہاں موجود نہیں تھے۔ شاید اُن کو کسی دوسری جگہ منتقل کردیا گیا تھا۔

مجھےیقینی طور پر یاد نہیں، لیکن شاید 6اگست کی سیاہ بارش کے بعد ہی میری ملاقات  سیکنڈ آرمی فورس کمانڈ کے جنرل ہاتا شن روکوسے یوکو گاوا دریا کے دوسرے کنارے پر ہوئی ۔ مجھے جنرل کےساتھ موجود ایڈجوٹنٹ نے حکم دیا کہ"تم جنرل ہاتا کوکمر پر  اٹھاکرتین مان دریا  پار کراؤ گے، لیکن خیال رکھنا جنرل صاحب بھیگنے نہ پائیں"۔ جنرل ہاتا چھوٹے قد کے تھے۔میں نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے جنرل ہاتا کو اپنی پیٹھ پر سوار کرکے دریا پار کیا ، وہ بالکل بھی بھاری نہیں تھے۔
 
امدادی کاروائیاں
ایٹم بم کے حملے سےمحفوظ رہ جانے والے تقریباً 90 کے قریب سپاہیوں کو مغربی پریڈ گراؤنڈ میں جمع کرکے ان کو لاشوں کو ٹھکانےلگانے کا کام سونپا گیا۔ ہم لوگ بہت بڑی تعداد میں لاشوں کو نذرِآتش کر رہے تھے۔ اگر ایک دن ڈھائی سو ہیں تو دوسرے دن تعدادتین سو ہوجاتی تھی۔ اس طرح لا تعداد لاشوں کو ٹھکانے لگایا گیا ۔

اس کاروائی کے دوران خاص طور پر یاد رہ جانے والی بات دو امریکی سپاہیوں کی لاشیں تھیں جو ہیروشیما قلعہ کی سیڑھیوں پر پڑی ہوئی تھیں، یہ یقیناًان  جنگی قیدیوں میں سے  ہونگے جو ان دنوں ہیروشیما قلعہ کے قریب ایک عمارت میں پکڑ کر رکھےہوئے  تھے۔

6 اگست کے دن  ہمارے پاس کھانے پینے کے لئے  کچھ بھی نہیں تھا، اس لئے  میں اپنے 30 ساتھیوں کو لے کر بسکٹ لینے بلدیہ دفترگیا۔خیال یہ تھا کہ وہاں بات چیت کرنے پر کچھ کھانے کو مل جائے گا، لیکن ہماری توقع کے بالکل برخلاف  بہت کچھ جھگڑا ہونے پر بھی ہمیں وہاں سے کچھ نہ مل سکا ۔ پورا  دن  ہمیں اپنی بھوک بہلانے کے لئے  گرم پانی میں چینی ڈال کر پینی  پڑی ۔لیکن 7 اگست سے ہمیں دوسرے شہروں سے آئی ہوئی امدادی ٹیموں  نے ابلے ہوئے چاول  اور بسکٹ کھانے کے لئے  دیئے۔

اگست کے مہینے کے اختتام تک ہم لوگ امدادی کاروائیوں میں مصروف رہے اوریہ تمام عرصہ ہم کھلے   میدان میں سویا کرتے تھے۔

بالآخر 31 اگست کو تمام یونٹس کو توڑنے کے احکامات جاری کردیئے گئے۔جب یونٹس کو توڑ دیا گیا تو فوجی رسد کے گوداموں میں موجود مختلف اشیاء بھی سپاہیوں میں تقسیم کردی گئیں۔ مجھے فوجی وردی اور کمبل ملے۔ کچھ سپاہی جو دوردراز دیہاتی علاقوں سے تعلق رکھتے تھے ان میں کچھ کوفوجی اصطبل میں موجود گھوڑے بھی دے  دیئے گئے، جن پر سوار ہو کر وہ اپنےاپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔

یکم ستمبر کو میں اتوسا کی کی بندرگاہ پر ہمیں لینے آ ے ہوئےپانی کے جہاز پر سوار ہوا اور  ان نو شیما  کو لوٹ آیا ۔
 
بیماریوں کی بابت
ان نو شیما واپسی کےتقریباًدو ماہ بعدایک کھیت میں پیشاب کرنے کے دوران میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ میں نے ایک وقت میں دولیٹر کے قریب بھورے رنگ کے پیشاب کا اخراج کیا ہے۔اس کے بعد بھورے رنگ کا پیشاب ایک معمول بن گیا۔اگلا سال شروع ہوا تو مجھے پیٹ کی بیماریوں کے با عث ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔اس کے بعد میں دوسری مرتبہ جگر کی خرابی کے با عث  ہسپتال میں داخل ہوا۔ 1998 میں میرے مثانے میں کینسر ہوگیا، اور مجھے ہسپتال میں داخل ہونا پڑا اور تاحال میرا علاج جاری ہے۔

ستمبر 1960 میں مجھے ایٹمی بمباری سے متاثرہ ہونے کا کارڈ دیاگیا۔ یہ کارڈحاصل کرنے سے پہلے میں  تذبذب میں تھا کہ آیا کہ مجھے یہ کارڈ  لینا چاہیئے یا نہیں؟ تاہم بلدیہ دفتر کےمشورےپر میں نےیہ کارڈ لینے کا فیصلہ کیا۔اس کے بعد جب بھی مجھے کوئی ایسی بیماری ہوتی جس کا تعلق ایٹمی بمباری  سےخیال کیا جا سکتا ہو، تو یہ کارڈ میرے بہت کام آتا۔ اچھا ہوا کہ میں نے یہ کارڈ لے لیا تھا۔
 
جنگ کے بعد کی زندگی
جنگ کے اختتام کے بعد میں نے ان نو شیما میں ایک جنرل اسٹور کھول لیا تھا۔ یہ اسٹور چونکہ ایک دیہاتی علاقہ میں کھولاگیا تھا اسلئے  اس پر دیگر کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ  چاول ،گیہوں اور تیل بھی فروخت کیا جاتا تھا۔ بعد میں ہم نے اپنی  دکان پر چھوٹی موٹی گھریلو استعمال کی بجلی کی مشینیں بھی رکھنی شروع کردی تھیں۔ ان دنوں ہماری زندگی ہرگز آسان نہ تھی ،بس کسی نہ کسی طرح گزارہ ہو جاتا تھا۔ لیکن میں نے اپنے بچوں کو تعلیم کیلئے  یونیورسٹی تک پہنچادیا ۔

1946میں میری بڑی بیٹی کی پیدائش کے بعد جلد ہی میری بیوی اور بچی کا انتقال ہوگیا۔جس کے بعد 1947 میں نےاپنی موجودہ بیوی سےشادی کرلی، جس سے میرےمزید دو بیٹے اورایک بیٹی پیدا ہوئی۔ میرے بچوں کی پیدائش چونکہ جنگ کے بعد ہوئی تھی اسلئے  وہ بہت کمزور تھے۔ مجھے یہ بھی تشویش تھی کہ کہیں اسکی وجہ  میرے ایٹمی تابکاری کے اثرات نہ ہوں۔ میری بیوی اپنی  بیٹی کو اپنے ایٹمی  تابکاری کے اثرات والے افراد کی دوسری نسل ہونے  کے بارے میں لوگوں کو بتا نے سے منع کیا کرتی تھی۔ کیونکہ اس کا خیال تھا کہ اس سے اس کی شادی میں رکاوٹ پڑنے کا امکان ہے۔
 
سینیئرافسر کا ایٹمی بمباری سے  انتقال
میرا خیال ہے کہ اگر جنگ اسی طرح جاری رہتی توجاپان کاحال بہت براہو جاتا ۔میرے خیال میں موجودہ امن  بہت زیادہ  قربانیوں  کا مرہون منت  ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں ایٹمی تابکاری کے براہ راست اثرات سے بچ پایا اور آج بھی زندہ ہوں تو یہ سب سارجنٹ اوکادا کی مہربانی کی وجہ سے ہے،جنہوں نے مجھے شہر سے باہر جانے کی اجازت دی تھی۔ 6 اگست کو وہ ہماری آخری ملاقات تھی جب انہوں نے مجھ سے کہا تھاکہ "میاچی! تم خوش قسمت  ہو"۔ اسکے بعد سے مجھے سارجنٹ اوکادا کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہیں؟ طویل عرصے تک میرے ذہن پر ایک بوجھ سا رہا۔ کاش میں ان کو کہہ سکتا کہ "میں آپ کاتہہ دل سے مشکور ہوں، سارجنٹ"۔ میری خواہش کا  احترام کرتے ہوئے میرے بچوں نے سارجنٹ اوکادا  کے بارے میں ہرممکن طریقے سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ انٹرنیٹ پر تلاش کیا ،  باری باری ہر ایک مندر میں فون کرکے پوچھا، اور بالآخرسارجنٹ اوکادا کی قبر تلاش کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔

2007 میں مجھ سمیت ہمارے پورے خاندان نے سارجنٹ اوکادا کی قبر پر حاضری دی، اور ان کا شکریہ ادا کیا ۔ اس طرح گویا میرے سینے سے ایک بہت بڑا بوجھ ہلکا ہوگیا ۔
 
 

جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ اس ویب سائٹ پر موجود تصاویر اور مضامین کی غیر مجاز نقل کرنے کی سختی سے ممانعت ہے۔
ہوم پر واپس لوٹیںTop of page
Copyright(c) Hiroshima National Peace Memorial Hall for the Atomic Bomb Victims
Copyright(c) Nagasaki National Peace Memorial Hall for the Atomic Bomb Victims
جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ اس ویب سائٹ پر موجود تصاویر اور مضامین کی غیر مجاز نقل کرنے کی سختی سے ممانعت ہے۔
初めての方へ個人情報保護方針
日本語 英語 ハングル語 中国語 その他の言語