国立広島・長崎原爆死没者追悼平和祈念館 平和情報ネットワーク GLOBAL NETWORK JapaneaseEnglish
 
Select a language / اردو (Urdu・ウルドゥ語) / Memoirs (ایٹمی بم کے متاثرین کی یادداشتیں پڑھیں)
 
آنے والی نسلوں کے لئے امن کی خواہش 
مائےدوئی توکیو(MAEDOI Tokio ) 
جنس مرد  بمباری کے وقت عمر 12 
تحریر کا سال 2009 
بمباری کے وقت محل وقوع ہیروشیما 
Hall site ہیروشیما قومی امن یادگاری ہال برائے متاثرین ایٹمی بمباری 
اے- بمباری سے پہلے کی زندگی
1945 میں میں اپنی ماں اور دو بڑی بہنوں کے ساتھ کوسونوکی چو اچّومے میں رہتا تھا۔ اگرچہ میں میساسا مڈل اسکول کے درجہ جدید میں پہلی جماعت کا طالب علم تھا، میں ہر روز فیکٹریوں اور دیگر مقامات میں طالب علموں کو متحرّک کرنے کے پروگرام کے تحت  کام کیا کرتا تھا چنانچہ میں نے کبھی بھی اسکول کی کلاسوں میں شرکت نہیں کی. میں اپنے چالیس ہم جماعتوں کے ساتھ مل کر نسان موٹر کمپنی لمیٹڈ فیکٹری میساسا ہون ماچی تین چو مے میں کام کرتا تھا۔ میری دونوں بڑی بہںیں بھی کام کرتی تھیں۔ کازوئے ہیروشیما ڈاک سیونگز برانچ میں اورتسورے فوج کے کپڑے کے ڈپو میں کام کرتی تھی۔
 
 6 اگست
اس صبح بھی میں نسان موٹر کمپنی لمیٹڈ میں اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ ایک متحرک طالب علم کے طور پر کام کر رہا تھا۔ میرے ہم جماعت کارخانے بھر میں بکھرے ہوئے تھے اورمیری ڈیوٹی دفتر میں تھی جہاں میں مختلف قسم کے کام سر انجام دیتا تھا مثلا جب فیکٹری سے حکم آتا تو میں کارکنوں تک پرزے پہنچاتا تھا۔ اس وقت بھی کچھ پیچوں کے لئے درخواست آئی ہوئی تھی، چنانچہ میں دو ڈبے ہاتھ میں لے کر دفتر سے نکلا اور دفتر کے پیچھے واقع فیکٹری کی طرف چلنا شروع کیا۔ اچانک گیس کے چولہے کے شعلے سے مشابہ ایک نیلے رنگ کی روشنی نے مجھے گھیرے میں لے لیا۔  مجھے کچھ نظر نہیں آرہا تھا اور یوں لگ رہا تھا جیسے میں ہوا میں اڑ رہا ہوں۔ 

میں نے سوچا کہ ہم اچانک ہونے والے بم دھماکے کی زد میں آگئے ہیں، اگرچہ فضائی حملے کا الرٹ واپس لے لیا گیا تھا اور ہم مکمل طور پر بے بس تھے۔  میں نے فوری طور پر سوچا، "اوہ، میں مرنے جا رہا ہوں ..."

مجھے علم نہیں کہ کتنے منٹ اس حالت میں گزرے مگر جب مجھے ہوش آیا تو میں  نے محسوس کیا کہ میں زمین پر پڑا تھا. تھوڑی دیر بعد، جیسے آہستہ آہستہ دھند صاف ہورہی ہو، میری بصارت بحال ہوگئی اور میں نے سوچا  کہ "میں زندہ ہوں!"

میں  ایک قریبی گیس سلنڈر پر گرا ہوا تھا اس نے میرے ہاتھوں کی جلد کو چھیل دیا تھا۔ بعد میں سوچنے پر مجھے یاد آیا کہ اے - بم کے گرنے کے وقت میں سر سے گنجا تھا اور آدھے  بازو اور گول گلے والی شرٹ اور نیکر  پہنے ہوئے تھا جسکے نتیجے میں میری ننگی جلد بری طرح جھلس گئی۔   فوری طور پر مجھے اپنے بری طرح جھلسنے کا احساس نہیں ہوا، اور نہ کسی قسم کا درد محسوس ہوا۔ چونکہ میں اپنے ساتھ کام کرنےوالے کسی بھی ہم جماعت کو نہیں دیکھ سکا، میں نے اپنی فیملی کے متعلق سوچا اور گھر جانے کا فیصلہ کیا۔ جب میں نے چلنا شروع کیا تو میں نے فیکٹری کے بڑے دروازے کی طرف دیکھا جس پر دستک ہو رہی تھی اور تین آدمیوں کو وہاں نیچے پھنسا ہوا پایا۔ کچھ قریبی لوگوں کی مدد سے ہم انہیں دروازے کے نیچے سے نکالنے کے قابل ہوگئے اور اسکے بعد سب نے کہا بھاگو، بھاگو اور فیکٹری سے بھاگ نکلے ۔
 
اے - بم دھماکے کے بعد کی صورتحال
شہر مکمل طور پر منہدم عمارتوں اور دیواروں سے ڈھکا ہوا تھا اور مجھے سڑک پر کچھ دکھائی نہیں دے رہاتھا۔ سلگنے والی آگ کی طرح کا دھواں ہر جگہ پھیلا ہوا تھا۔ جبکہ گلیوں میں چلنے والے سب لوگ جھلسے ہوئے تھےاور کچھ بچوں کو دبوچے ہوئے بھاگ رہے تھے۔

لکڑی کے ملبے اور ڈھیر کے اوپر چلتے ہوئے ایک کیل میرے جوتے کے نچلے حصے کے ذریعے میرے پاؤں میں گھس گیا لیکن اس وقت میں اتنا ڈر گیا تھا کہ میں کسی طرح کا درد محسوس نہیں کر سکا. میں نے اپنے پاؤں کے نیچے ملبے سے کراہنے کی آواز، اور مدد کی پکار سنی اور جیسے وہ ایک دوزخ کا منظر ہو۔ میں خود بہت پریشان تھا اور مدد کے لئے چلاتے ہوئے ان لوگوں کی مدد کئے بغیر، میں بس اپنے گھر کی طرف چلتا رہا.  جب میں گھرپہنچا تو میں نے دیکھا کہ ہمارا گھر مکمل طور پر تباہ ہو چکا تھا. اگرچہ میری ماں اور بہنوں کو وہاں ہونا چاہیے  تھا لیکن میں نے انکی موجودگی کی کوئی علامت نہیں دیکھی. جیسا کہ میں صرف بارہ سال کی عمر کا تھا،  فوری طور پر تشویش کا احساس مجھ پر غالب آگیا۔ اورمیں نے محسوس کیا کہ میں اس دنیا میں اکیلا رہ گیا ہوں۔ میں نے اپنے پچکے ہوئے گھر کو تھوڑی دیر کے لئے غائب دماغی کی حالت میں  گھورا اور سوچا کہ یہ انجام ہے۔ ایسا کرتے وقت میں نے قریبی لوگوں کو کہتے ہوئے سنا کہ " آگ پھیل رہی ہے. یہاں سے دور چلے جاؤ "اور میں نے آہستہ آہستہ فرار ہونے کا عزم کیا.

جیسے ہی میں نے مضافات میں پناہ گاہ کی طرف، جسکا تعین میرے خاندان نے پہلے ہی کیا ہواتھا،  چلنا شروع کیا، میرا سامنا میرے ایک ہم جماعت ناکا مورا، جو کہ میرے ساتھ ایک ہی فیکٹری میں کام کرتا تھا، سے ہوا۔ وہ میتاکی چو میں اپنے رشتے داروں کے گھر میں پناہ لینے کے لئے جا رہا تھا اور اس نے مجھے بھی یہ کہتے ہوئے اپنے ساتھ  چلنے کی دعوت دی کہ "چلو ساتھ چلیں"۔

چونکہ میتاکی چو ایک پہاڑی پر واقع تھا جہاں بہت کم نقصان ہوا تھا ہم نے کچھ ٹوٹی ہوئی کھڑکیوں کے ساتھ تھوڑے سے تباہ ہوئے ہوئے گھر دیکھے۔  اس کی چچی نے کہا کہ "خدا کا شکر ہے کہ تم بچ گئے ہو اس نے ہمیں چاولوں سے بنی ہوئی گیند دی لیکن مجھے بالکل  بھوک نہیں تھی اورمیں کچھ بھی نہیں کھا سکتا تھا. آخرکار میں آرام کرنے کے قابل ہوا اور میں نے اپنے جسم میں درد محسوس کرنا شروع کر دیا، اور محسوس کیا کہ میرے ساتھ کچھ گڑبڑ ہے. میں ہر اس جگہ سے جہاں کپڑے نہیں تھے جھلسا ہوا تھا۔  اور میرے جسم پر اسقدر چھالے تھے کہ انکے اندر پانی بہتی ہوئی موجوں کی طرح حرکت کر رہا تھا۔  میں نے  ٹوپی بھی نہیں پہنی ہوئی تھی اسلئے میرا سر بھی جل چکا تھا اور درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں. اگرچہ کہا جا تا ہے کہ اگر آپ کے جسم کا ایک تہائی حصہ  جل جائے تو آپ کو مر جانا چاہیئے ، مجھے لگتا ہے کہ میرا جسم اس سے بھی زیادہ جل چکا تھا۔

دوپہر سے کچھ  وقت پہلے بارش ہونا شروع ہوگئی اور میرے جلتے ہوئے جسم کو کچھ راحت ملی۔  میں نے تھوڑی دیر کے لئے بارش  کو اپنے  جسم پر برسنے دیا۔ . گرتی ہوئی  بارش کو میں نے قریب سے دیکھا تو وہ پٹرول کی طرح چمک رہی تھی. اگرچہ اس وقت مجھے بالکل سمجھ میں نہیں آ یا،بعد میں مجھے احساس ہوا کہ  یہ تابکار "سیاہ بارش" تھی.

اس کے بعد، میں نے ناکامورا سے اجازت لی اور  اوریاسومورا {موجودہ آسامی نامی کو، ہیروشیما شہر}   جو ہماری پناہ گاہ تھی کی طرف  دوبارہ چلنا شروع کیا۔  میرا جسم مسلسل جل رہا تھا، لہذا میں نے قریبی کھیت سے  کچھ کھیرے اور ککڑی لے کر ان کا رس اپنے زخموں پر نچوڑا اور چلنا جاری رکھا۔

آخر کار جب میں اسکول پہنچا توامدادی مرکز کھلا ہوا تھا اور  پکڑی ہوئی ُٹُوںا مچھلیوں کی طرح قطار میں لیٹے زخمی لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ وہاں مجھے پہلی بار طبی امداد ملی ارو وہ بھی صرف انہوں نے کچھ کھانا پکانے کے تیل کو میرے زخموں پر لگایا۔ . اسکول اے - بم دھماکے کے متاثرین کے ساتھ  اتنا ذیادہ بھرا ہوا تھا کہ مجھے ایک دوسری پناہ گاہ میں بھیج دیا گیا- جب میں  وہاں منتقل ہوا تو غیر متوقع طور پر میری ملاقات اپنی  بہن سُوروئے سے ہوئی. وہ گھر میں تھی جب اے- بم گرایا گیا تھا اوراس نے  پٹی اپنے زخمی سر کے گرد لپیٹ رکھی تھی . آخر میں ایک رشتہ دار سے ملاقات کرنے کے قابل ہوا تو میں نے سوچا، " ، آخر میں اکیلا نہیں ہوں،" اورمیں نے اطمینان محسوس کیا۔  میری بہن نے مجھے بتایا کہ ہماری ماں محفوظ تھی اور ہم اسے تلاش کرنے کے لئے گئے. میری والدہ اے- بم گرنے کے وقت برآمدے میں تھی اس کی ٹانگ پر گہرا زخم آیا تھا اور اسکا  چہرہ بھی جھلسا ہوا تھا. اس کے بعد، ہم اپنی دوسری بہن کازوئے سے ملے جو ہیروشیما پوسٹل  بچت کی شاخ میں  کام کرتی تھی۔
ہم جنگ کے اختتام تک وہاں رہے. میرے اردگرد کے لوگ یہ کہنا شروع ہو گئے کہ میں ذیادہ دیر تک زندہ نہیں رہوں گا۔ ایک ڈاکٹر کو "گونومُورا" بھیجا گیا، چنانچہ مجھے ایک دو پہیوں والی گاڑی پر ڈال کر طبی امداد کے لئے لے جایا گیا. یہ پہلا موقع تھا جب کچھ سفید رنگ کی ادویات کے ساتھ میرا علاج کیا گیا اور میں نے کچھ اصلی طبی امداد حاصل کی۔  طبی امداد حاصل کرنے کے باوجود میرے زخم اتنے سنگین تھے کہ میں اپنے کپڑے اتار نہیں سکتا تھا بلکہ ان کو قینچی کے ساتھ کاٹ کراتارنا پڑا-  مجھے تیز بخار تھا اور میں بیت الخلا تک صرف اسوقت جا سکتا تھا جب کوئی مجھے سہارا دیتا۔ خود زخمی ہونے کے باوجود، میری ماں نے میری"اپنے سب سے کم عمر بچے اور واحد بیٹے" کی دیکھ بھال کی- مجھے یاد ہے کہ میری ماں رات بھر جاگتی رہتی اور رکے بغیر مجھے پنکھا جھلتی رہتی اور کہتی رہتی بہت گرمی ہے کیا ایسا نہیں ہے؟" جب میرے زخم ٹھیک ہونا شروع ہوئے، میرے ناک سے اکثر خون بہنے لگا – کبھی کبھی خون اسوقت تک بہتا رہتا جبتک ڈاکٹر اسے روکنے کے لئے  انجکشن نہ لگاتا۔

میں آہستہ آہستہ ٹھیک ہونے لگا اور مقامی اسکول میں جانا شروع کر دیا. اس اسکول میں  تین طالب علموں کو اے- بم- دھماکے سے متاثر ہونے کے بعد ہیروشیما شہر سے منتقل کیا گیا تھا۔

ستمبر میں، مجھے ہیروشیما کے بارے میں تجسس ہونے لگا اور میں خود ہی  ہیروشیما شہر کی طرف جانے والی بس میں بیٹھ گیا۔ میں نے دیکھا کہ میرے گھر کے کھنڈرات کے قریب میرے پڑوسیوں نے کچھ جھوپڑی نما بیرکیں تعمیر کی ہوئی تھیں اور وہ ان میں رہائش پزیرتھےمیں نے ان سے بات جیت کی۔  اردگرد کچھ دوسری جھونپڑیاں بھی تھیں جو کچھ حد تک بارش سے تحفظ فراہم کرتیں تھیں۔  میں نسان موٹر کمپنی لمیٹڈ فیکٹری گیا، جہاں میں اے- بم دھماکے کے دوران تھا وہاں میرں ملاقات پلانٹ مینیجر سے ہوئی. اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں کس طرح تھا اور اے- بم-دھماکے کے بعد کیا ہوا تھا  مجھے خوف سے جھرجری آگئی جب اس نے مجھے بتایا کہ دفتر میں اے- بم کہ وجہ سے ایک عورت کی آنکھ کے ڈیلے باہر آگئے تھے - اسی دفتر میں جہاں میں اے- بم دھماکے سے کچھ دیر  پہلےتک  تھا - اس کے بعد میں نے نہ ہی اپنے چالیس ہم جماعتوں ، جو اس فیکٹری میں میرے ساتھ کام کرتے تھے، کو دیکھا اور نہ ہی ان کے بارے میں کچھ سنا-
 
اپنی زندگی کی تعمیر نو
دو یا تین سال کے بعد، میں اپنے مستقبل کے لئے ہیروشیما شہر منتقل ہو گیا کیونکہ  دیہی علاقوں میں روزگارکے مواقع موجود نہ تھے. جیسا کہ میرا کوئی تعلیمی پس منظرنہ تھا، ملازمت تلاش کرنا بہت مشکل تھا. تاہم، میں نے تعمیراتی مقامات پر اخبار کی ترسیل کی اور خود کو زندہ رکھنے کے لئے اسی طرح کے دیگر کام کیئے۔

جب میں تئیس سال کا تھا، میں نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے بعد میں نے محسوس کیا کہ مجھے اپنی ہونے والی بیوی کو سب کچھ بتانا چاہئے چنانچہ میں نے اس سے کہا کہ میں اے- بم  کے متاثرین میں سے  زندہ بچنے والا ہوں. سب کچھ جاننے کے باوجود اس نے میرے ساتھ شادی کرنے کا فیصلہ کیا.اس وقت اخبارات اور میڈیا میں اے- بم کے متاثرین کو مستقبل میں پیش آنے والے مسائل کے بارے میں  معلومات کا ایک بہت بڑا انبار تھا لیکن میں نے اس بارے میں جاننے کی کوشش نہیں کی. میں ستائیس سال کا تھا جب میرا پہلا بیٹا پیدا ہوا تھا اور یہ کہ اسی سال میرے سالے نے مجھے  تویو انڈسٹریز کمپنی {موجودہ مزدا موٹر کارپوریشن} نوکری دلوادی. اس وقت تک، میں مسلسل زریعہ روزگار کو تبدیل کرتا رہتا تھا ، لیکن میرے سالے نے صبر اور محنت  سے کام کرنے کے لئے میری حوصلہ افزائی کی ، لہذا میں نے اپنے بچے کے لیے مشکلات کا حوصلہ مندی سے سامنا کرنے کے عزم کے ساتھ نئے کام کا آغاز کیا.
 
صحت کے بارے میں تشویش
ساتھی کارکنوں کے ساتھ جو رات گئے تک میرے ساتھ کام کرتے تھے بات چیت کرے ہوئے میری ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جو آاوئی پل پر اے- بم سے متاثر ہوا تھا۔ چونکہ وہ اے- بم کے مرکز کے قریب اس بم سے متاثر ہوا تھا، میں اس کے حالات سن کر حیران رہ گیا۔  اسے  جوہری بم کے متاثرین کے لئے بنائے گئے کمیشن کی طرف سے جسمانی امتحان سے گزرنے کی درخواست کی گئی تھی- چونکہ  ہم دونوں اے- بم کے متاثرین تھے، ہم آپس میں بات جیت کرنے میں بہت لچسپی رکھتے تھے
تاہم، اس کی جسمانی حالت خراب ہوگئی  اور اسے ہسپتال میں داخل کر لیا گیا ، اور اگرچہ وہ ایک بار کام کی جگہ پر واپس آیا، پچاس سال کی عمر میں اسکی وفات ہوگئی- میں مسلسل اپنی صحت کے بارے میں تشویش کا شکار تھا اور مجھے یہ ایک قسم کا  معجزہ لگتا تھا کہ میں اب تک زندہ تھا-  . میں نے کام جاری رکھا اور پچپن سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ لے لی.
 
امن کی خواہش
اے- بم دھماکے کے اپنے تجربے کے بارے میں بات کرنے کے فیصلے کی وجہ یہ ہے کہ، بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ میری جسمانی حالت خراب ہو رہی ہے  جبکہ اپنے تجربات کے بارے میں نوجوان نسل کو بتانے کی خواہش مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ آج کے نوجوانوں کو پرانے وقتوں کی طرح جنگ میں حصہ لینے پر مجبور نہیں کیا جا رہا بلکہ وہ اپنی مرضی سے کام کرنے کے لئے آزاد ہیں۔  میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ وہ چونسٹھ سال قبل پیش آنے والے واقعات کو تھوڑا سا سمجھیں  جو کہ آج ناقابل تصور ہیں۔ اسکے علاوہ وہ اسوقت کے ان نوجوان لوگوں کے خیالات کو  جنہوں نے اپنی  جانیں گنوا دی اور پچھلی نسل کے مصائب کوسمجھیں۔

مذید براں میں نوجوان نسل کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتا ہوں تاکہ وہ جوہری ہتھیاروں کو ختم کرنے کے لئے آگے بڑھیں تاکہ جو تکالیف میں نے اٹھائیں وہ کسی اور کو نہ اٹھانیں پڑیں- ان مصائب سے گزرنا  کسی کے لئے بھی خوشگوار نہیں ہو گا- میں اپنی زندگی ہی میں جوہری ہتھیاروں کا خاتمہ ہوتا دیکھنا چاہتا ہوں۔
 
 

جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ اس ویب سائٹ پر موجود تصاویر اور مضامین کی غیر مجاز نقل کرنے کی سختی سے ممانعت ہے۔
ہوم پر واپس لوٹیںTop of page
Copyright(c) Hiroshima National Peace Memorial Hall for the Atomic Bomb Victims
Copyright(c) Nagasaki National Peace Memorial Hall for the Atomic Bomb Victims
جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ اس ویب سائٹ پر موجود تصاویر اور مضامین کی غیر مجاز نقل کرنے کی سختی سے ممانعت ہے۔
初めての方へ個人情報保護方針
日本語 英語 ハングル語 中国語 その他の言語