国立広島・長崎原爆死没者追悼平和祈念館 平和情報ネットワーク GLOBAL NETWORK JapaneaseEnglish
 
Select a language / اردو (Urdu・ウルドゥ語) / Memoirs (ایٹمی بم کے متاثرین کی یادداشتیں پڑھیں)
 
جنگ کے زخم کبھی نہیں بھرتے 
فُوجی اے کیَوکوُ(FUJIE Kyoko) 
جنس خاتون  بمباری کے وقت عمر
تحریر کا سال 2010 
بمباری کے وقت محل وقوع ہیروشیما 
Hall site ہیروشیما قومی امن یادگاری ہال برائے متاثرین ایٹمی بمباری 
اے- بم دھماکے سے پہلے کی صورتحال
اس وقت میں اُوجینا پرائمری سکول کی چوتھی جماعت میں تھی . میرے والد کی عمر اسوقت اکتالیس سال تھی، انکی ڈیوٹی بحری فوج کے ہیڈکوارٹر میں تھی اور وہ ایک سال سےملک سے باہر ایک فوجی بحری جہاز پرتعینات تھے اور گھر پرجواُوجینا ماچی {موجودہ مینامی کو ہیروشیما شہر} میں واقع تھا، چھ ماہ میں صرف ایک بار چکر لگاتے تھے - میری ماں، جو اس وقت اکتیس سال کی تھی، ایک نرس تھی اور اس بات سے قطع نظر کہ شہر کس قدر خطرناک بن گیاتھا وہ شہر چھوڑ کر نہیں جا سکتی تھی کیونکہ اسے مریضوں کی دیکھ بھال کرنی تھی-  میری چھوٹی بہن، جو ایک سال اور پانچ ماہ کی تھی ، اور میری اسی سالہ دادی  بھی ہمارے ساتھ رہتی تھیں-

ہم نے اپنے چچا کی بیٹی کو بھی گود لیا ہوا تھا کیونکہ میرے چچا، جو کوریا میں شپ یارڈ کا انتظام کرتے تھے، اسے ایک جاپانی سکول میں تعلیم دلوانا چاہتے تھے-
 
اسکول کے بچوں کے انخلا کی یادیں
تقریبا اپریل 1945 میں اّوجیانا پرائمری اسکول کے گریڈ تین سے چھہ کے بچوں کو بچوں کی پناہ گاہ میں بھیج دیا گیا تھا-  ہمیں علیحدہ علیحدہ کر دیا گیا تھا اورمِیوشی چو ساکوگی-سون یا فونو-سون {موجودہ مِیوشی ٹاؤن} جو ہیروشیما پریفیکچر کے شمال میں واقع تھے، بھیجا گیا تھا- مجھے مِیوشی چو میں جوجُن جی مندر بھیجا گیا تھا- 

مندر میں کھانا تقریبا مکمل طور سویابین پر مشتمل تھا. کھانا صرف تھوڑے سے چاول جو سویابین سے چپکے ہوئے ہوتے تھے پر مشتمل ہوتا تھا یہاں تک کہ اسنیکس بھی سویابین سے بنے ہوئے ہوتے تھے. ایک دفعہ ایسا ہوا  کہ ، ایک چاول کی گیند مندر کے پجاری کے بیٹے،جو جونیر ہائی اسکول جانے کی عمر کا تھا،  کے لنچ باکس سے چوری ہوگئی- اساتذہ نے ہم سب کو مندر کے مرکزی ہال میں بٹھایا اور مطالبہ کیا: "جس نے چاول کی گیند چوری کی ہے اسکا ابھی اعتراف کرلے"

مندر کے قریب توموئے نام کا ایک بڑا پل تھا  اور اسکے قریب ہی ایک مندر تھا۔ اس مندر میں ایک بڑا چیری کا درخت تھا جسپر چیری بھِی لگتی تھی-  بڑی عمر کے بچے درخت پر چڑھتے اور  چیری کھاتے - میں کچھ بھی نہیں جانتی تھی لیکن بڑی عمر کے بچوں نے مجھے بلایا اور اور مجھ سے کہا کہ درخت کے نیچے باہر کے رخ  کھڑے رہو. جب میں ایسا کر رہی تھی، ایک بوڑھا آدمی ہم پر چِلّاتا ہوا آیا اور مجھے پکڑ لیا. پھر اس نے اوپر دیکھا اور چلّاتے ہوئے دوسرے بچوں کو بھی نیچے اترنے کے لئے کہا،!۔ بڑی عمر کے بچے بھی درخت سے نیچے اتر آئے. بوڑھے آدمی نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور میں رو رہی تھی جب اس نے مجھ سے پوچھا میں کہاں سے ہوں. "جوجُون جی مندر سے،" میں نے جواب دیا تو اس نے کہا کہ، " پھر ٹھیک ہے ،" اور میرا ہاتھ چھوڑ دیا. پھر بوڑھے آدمی نے کہا، "میں  یہاں پیاز اور دوسری چیزیں اگا رہا ہوں-  اگر آپ  ان پر چلیں گے تو وہ کھانے کے قابل نہیں رہیں گی- ، آپ بالکل ایسا نہیں کر سکتے.اب رونا بند کرو." اس شام، بوڑھے آدمی نے ہمیں کھانے کے لئے بھاپ سے ابلی ہوئی شکر قندی اور دوسری چیزیں دیں. اگرچہ پہلے پہل وہ بہت ڈراونا لگا ، میں نے سوچا کہ وہ اصل میں بہت مہربان تھا ،. میں نے اندازا لگایا کہ اس نے سوچا  ہوگا کہ ہم اسلئے چیری چوری کرنے کے آئے ، کیونکہ ہمیں بہت بھوک لگی تھی-

پناہ گزین بچوں کو ان کے والدین کی طرف سے کبھی کبھار مٹھائی بھیجی جاتی، تاہم ہمیں اسے چکھنے کا موقع کبھی نہیں ملا تھا. میری والدہ نے مجھے سویابین سے بنی ہوئی سخت کینڈی بھیجی لیکن اساتذہ نے اسے ضبط کر لیا- بڑی عمر کے بچوں کے بقول ،شاید وہ اساتذہ کے پیٹ میں پہنچ گئی ہو-

خوفناک جوؤں نے حملہ کردیا. ہم  نے اخبار بچھائے اور اپنے بالوں میں کنگھی کرکے انہیں با ہر نکال دیا- جوؤیں خون چوسنے کی وجہ سے کالی ہو گئی تھیں  اور ہم ان کو کچلنے لگے. ہم نے  اپنی قمیضیں دھوپ میں خشک کرنے کے لئے مندرکے برآمدے میں پھیلا دیں- 
 
 چھ اگست
اے- بم گرنے سے ٹھیک ایک ہفتے پہلے، میرے والد بیرون ملک سے واپس آئے تو میں بھی انہیں دیکھنے کے لئے جلدی سے گھر گئی- مجھے پانچ اگست کو انخلائی علاقے میں واپس جانا تھا، لیکن مجھے اس دن کے لئے ٹکٹ نہیں مل سکی، اسلئے میں نے چھ اگست کے لئے ٹکٹ خریدی-

چھ اگست کی صبح میری ماں میری چھوٹی بہن کو اپنی کمر پر لاد کر مجھے الوداع کہنے کے لئے ہیروشیما اسٹیشن تک آئی- میرے محلے سے ایک بوڑھی عورت اپنے پوتے سے ملنے انخلائی علاقے تک جا رھی تھی، چناچہ ہم ریل گاڑی پر اکھٹے سوار ہوئے- ہم گیئبی لائن پر سوار ہوئے اور مِیوشی کی طرف جانے والی ریل گاڑی کے چلنے کی سمت کی طرف پشت کرکے بیٹھ گئے۔ ابھی ہم پہلی سرنگ میں داخل ہونے ہی والے تھے کہ میں نے تین پیراشوٹ دیکھے- پھر ہم سرنگ میں داخل ہو گئے اور پھر اچانک بم پھٹ گیا-

دھماکے کا اثر بہت شدید تھا اور ایک اونچی آواز میرے کانوں میں آئی- چونکہ میں نیچے بیٹھی ہوئی تھی میں ٹھیک تھی لیکن تمام لوگ جو  کھڑے ہوئے تھے، یہاں تک کہ بالغ لوگ بھی پیچھے کی طرف جھکے اور نیچے گر گئے- مجھے ٹھیک سے سنائی نہیں  دے رہا تھا اور یوں لگ رہا تھا کہ میرے کانوں میں پتھر ٹھونس دیے گئے تھے-
جب ہم سرنگ سے باہر آ رہے تھے، اے- بم کا دھواں ناقابل یقین حد تک خوبصورت لگ رھا تھا- بوڑھی عورت اور میں نے اسے دیکھا، اور کہا کہ، "اوہ، میرے خدا، یہ حیرت انگیز ہے." چونکہ میں صرف ایک بچی تھی، میں تصور نہیں کر سکتی تھی کہ ہیروشیما کا کیا بنا-

جب ہم  مِیوشی پہنچے تو بوڑھی عورت نے مجھ سے کہا، "ریڈیو کا کہنا ہے کہ ہیروشیما مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے." تاہم، میں اب بھی نہیں سمجھ سکی کہ کیا ہو رہا ہے ، اسلئے میں دوپہر میں گھاس کاٹنے کے لئے اسکول گئی تھی. وہاں پہلی بار ایک ٹرک ہیروشیما سے اے- بم دھماکے کے متاثرین کو لے کر اسکول پہنچا. شدید جلے ہوئے لوگ ایک کے بعد ایک ٹرک سے اتر رہے تھے تو میں بہت چونک گئی تھی. ایک شخص اپنے ہاتھ سے اپنے چہرے کی جلد پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا کیونکہ وہ اسکے گالوں سے  نیچے لٹک رہی تھی - ایک عورت جس کی چھاتی پوری طرح سے پھٹ چکی تھی،  اور ایک آدمی جو بانس کا جھاڑو الٹا پکڑے ہوئے تھا اور اسے ایک چھڑی کے طور پر استعمال کر رہا تھا-  مجھے وہ منظر آج بھی ہلکا سا یاد ہے- ، میں سچ میں  ڈرنے کی حد تک حیران رہ گئی تھی-
 
میرے خاندان کا اے- بم دھماکے   کا تجربہ
اے- بم دھماکے کے کوئی تین دن کے بعد مجھے مندر میں ہیروشیما سے اپنے خاندان کا پیغام موصول ہوا. اس کے بعد، بارہ یا تیرہ اگست کو، میں ٹرین کے ذریعے ایک چھٹی جماعت کے پڑوس میں  رہنے والے نوبوچان نامی لڑکے کے ساتھ ہیروشیما واپس آ گئی. وہاں میری اپنے والد کے سا تھ ہیروشیما اسٹیشن پر ملاقات ہوئی اور میں حیجی یاما پہاڑی کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے گھر پہنچی-

مجھے یاد ہے کہ، چلتے چلتے، میرے والد نے مجھے ہمارے خاندان کے حالات کے متعلق بتایا اور کہا "یہاں ستر سال تک کچھ بھی نہیں اگے گا."

جب ہم گھر پنیچے ،میری ماں سر سے پیر تک پٹیوں میں لپٹی ہوئی تھی. اسے  پٹیوں میں اس لئے لپیٹا گیا تھا تاکہ اسکے زخموں میں کیڑے نہ پڑیں، کیونکہ اسکا سارا جسم جل چکا تھا-  میری چھوٹی بہن کا پورا چہرہ جل کر سیاہ ہو چکا تھا- اس کے ہاتھ اور پاؤں بھی بری طرح جل چکے تھے، اسلئے اسے بھی پٹیوں میں  لپیٹا گیا تھا. جیسا کہ وہ بہت چھوٹی تھی، وہ  میری ماں کی حالت دیکھ کر بری طرح ڈر گئی تھی-

جب اے- بم گرا دیا گیا تھا، میری والدہ اور بہن اینکو پل پر بس کا انتظار کر رہیں تھیں. تقریبا ایک گھنٹے پہلے جب ہوائی حملے کا سائرن بج رہا تھا، میری ماں نے پڑوس میں رہنے والی ایک بوڑھی عورت کو اپنا ہیلمٹ ادھار دیا تھا جو اپنا ہیلمٹ بھول گئی تھی - اس وجہ سے، میری ماں مکمل طور پر اے- بم کی روشنی میں نہا گئی تھی. میری بہن جو میری ماں کی کمر پر سوار تھی، کا باياں پاؤں باياں ہاتھ اور چہرہ جل گیا تھا. میری والدہ نے میری بہن کو کمر سے اتارا اورجب وہ  ہیروشیما اسٹیشن کے پیچھے مشرقی ڈرل گراؤنڈ میں پناہ لینے کے لئے فرار ہو رہی تھی اسنے میری بہن کو آگ بھجانے کے پانی میں کئی دفعہ  ڈبویا –

جب اے- بم  پھٹا میری دادی گھر پر تھی-  اگرچہ گھر جلا نہیں تھا، وہ بری طرح تباہ ہو گیا تھا- میرے والد اور میرے کزن کو میری والدہ اور بہن کو تلاش کرنے میں  پورے دو دن لگے-  جب وہ انہیں ملیں، میری والدہ کا جسم جلنے کی وجہ سے اسقدر پھول چکا تھا کہ یہ بھی پتا نہیں چل رہا تھا کہ وہ خاتون تھیں یا مرد-
چھہ اگست کو، میری والدہ نے جو  لباس پہنا ہوا تھا وہ اس کپڑے سے بنایا گیا تھا جو کہ میرے والد نے بیرون ملک سے اس کے لئے بھیجا تھا. میری ماں کے لباس کا ایک چھوٹا سا حصہ جلنے سے بچ گیا تھا اور اور وہ میری بہن کے ہاتھ پر ایک شناختی علامت کے طور پر چپک گیا-  جب میرے والد اور میرے کزن ان کو ڈھونڈنے کے لئے آئے، میری ایک سال کی بہن نے میری کزن کو پہچان لیا اور انکا نام پکارا- پھر جب انہوں نے میری بہن کے ہاتھ پر کپڑا دیکھا وہ جان گئے کہ انہوں نے دونوں کو ڈھونڈ لیا تھا-  میری ماں نے کہا، "میرا آخری وقت آچکا ہے تم  بچی کو اٹھا کر اپنے گھر لے جاؤ،" لیکن میرے والد ان دونوں کو دو پہیوں کی ایک بڑی گاڑی پر ڈال کر گھر لے آئے-
 
میری والدہ کی وفات
میری والدہ پندرہ اگست کو وفات پا گئیں. میرے والد نے ایک پرانے درخت سے ڈھکن کے بغیر ایک سادہ تابوت بنایا اور ہم نے انہیں اپنے گھر کے پیچھے ایک خالی جگہ پردفن کر دیا. سب نے اُس جگہ کو دفنانے کے لئے استعمال کیا چناچہ وہاں بہت ذیادہ بدبو پھیل گئی جو ناقابل برداشت تھی اور ہمارے گھر کے اندر تک آرہی تھی –

میری ماں نے مرنے سے پہلے میری دادی {اپنی ساس} سے کہا، "ماں میں ایک بڑا آلو کھا نا چاہتی ہوں" جنگ کے دوران خوراک کی قلت کی وجہ سے، میری والدہ کپڑے، اور دیگر چیزیں لے کر دیہات میں جاتیں اور ان چیزوں کے بدلے آلو اور دیگر کھانے کی چیزیں لے کر آتی تھیں- مجھے لگتا ہے کہ میری ماں ہر وہ چیز جو تبادلہ کرنے کے قابل تھی کے بدلے چھوٹے آلو لے کر کھاتی . چھوٹے آلو کا ذائقہ بہت کھٹا ہوتا ہے اور آج  کل وہ شاید ہی کھائے جاتے ہوں-

اپنی ماں کی روح کے آرام کے لئے دعا کرنے کے لئے، میں ہمیشہ ٹورو {ایک تقریب ہے جس میں کاغذ کی لالٹین ایک دریا میں بہاتے ہیں} میں حصہ لیتی ہوں. میں بڑے ابلے ہوئے آلو بانٹتی ہوں-. اب بھی، جب میں بڑا آلو دیکھتی ہوں ، میں سوچتی ہوں کہ کسی طرح اسے اپنی ماں کو کھانے کو دے دوں-

جنگ کے بعد میرا شہر
اّوجیانا پرائمری اسکول کے ساتھ دریا کے وسیع کنارے کو قبرستان کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا- لاشوں کو نالیدار ٹن کی چادریں کے ساتھ صرف کناروں کی طرف سے منسلک کیا گیا تھا اور لاشوں کو ان کے اندرجلایا جاتا تھا- ان نالیدار ٹن کی چادروں کے اندر لاش کا سر رکھنے کے لئے ایک سوراخ ہوتا تھا- .جب ہم  بچے سمندرکے قریب سے گزرتے تھے جہاں لاشوں کو جلایا جاتا تھا. کبھی کبھی مجھے لگتا تھا کہ، "اوہ، اب سر جل رہا ہے." میں کئی ہڈیوں پر بھی قدم رکھ کر گزر جاتی تھی-  مجھے لگتا ہے کہ وہ علاقہ اسوقت تک شمشان گھاٹ رہا، جب تک میں پرائمری اسکول کی چھٹی جماعت میں تھی-

جنگ کے بعد زندگی واقعی بہت مشکل تھی لیکن یہ صرف ہمارے لئے نہیں تھی بلکہ ہر کوئی ایک جیسی  مشکلات کے ساتھ رہتا تھا-

میری بہن، جو جب اے- بم دھماکہ کے وقت میری ماں کے ساتھ تھی، بچ گئی تھی. اس وقت، لوگوں نے کہا کہ یہ ایک معجزہ ہے کہ اتنی چھوٹی بچی زندہ رہنے کے قابل تھی. اگرچہ میری بہن بڑی ہو رہی تھی وہ ہر وقت سنتی تھی، "یہ بہت اچھا ہے کہ آپ بچ گئی ہیں ،  یہ بہت اچھا ہے کہ کہ آپ زندہ ہیں"

تاہم، میری بہن کے پاؤں پر خوفناک  کیلائیڈ رہ گئے تھے اور وہ خراب ہو گیا تھا-  وہ جوتے نہیں پہن سکتی تھی اور وہ ہمیشہ گیتا (لکڑی کی جاپانی چپل) پہنتی تھی . ان دنوں میں بہت سے لوگ تھے جو گیتا پہنتے تھے، تو اس لئے اسے روزمرہ  زندگی میں کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوتا تھا-  لیکن اسے  کھیل کے تہوار یا  سفر میں مشکلات پیش آتی تھی کیونکہ ایسے موقعوں پر گیتا کا استعمال نہیں کیا جاتا تھا-

چونکہ اسکی مدد نہیں کی جا سکتی تھی وہ دو تہوں والی فوجی جرابیں پہنتی تھی- اسکے  پاؤں کی وجہ سے، میری بہن کو بری طرح ستایا گیا تھا. اس وقت یہ افواہ تھی کہ اے- بم کی بیماری متعدی تھی، تو لوگ میری بہن کو اشارہ کرتے تھے کہ کس "اسکی انگلیاں سڑ رہی ہیں،" یا "اگر آپ بھی اسکے قریب جائیں گے  تو آپ بھی بیماری کا شکار ہو جائیں گے". اے- بم کے کئی سال بعد بھی ، جب وہ پرائمری اسکول میں جا رہی تھی، وہ تماشا بنی ہوئی تھی اور لوگ دور دور سے اسے دیکھنے کے لئے آتے تھا –

بہر حال، میری بہن نے مجھے یا میری دادی کو کبھی نہیں بتایا کہ اسے کس طرح سے ستایا جاتا تھا. وہ اس کے درد کے بارے میں شکایت نہیں کرتی تھی اور اسکا صرف یہ کہنا تھا کہ "دادی ماں، یہ واقعی بڑی بات ہے کہ میں زندہ رہنے کے قابل ہوں؟" جیسا کہ یہ کچھ  وہ اس وقت سے کہتی رہی  جب سے وہ بچی تھے، ایسا لگ رہا تھا جیسے کہ وہ خود سوچنے کی کوشش کر رہی تھی، "یہ بہت اچھا ہے کہ میں بچ گئی تھی ، یہاں تک کہ میں اتنی بری طرح سے جل گئی تھی، زندہ رہنا بہت بڑی بات تھی- "حال ہی میں میں نے اپنی بہن کی ڈائری پڑھی ہے ، میں نے دیکھا جہاں اس نے لکھا ہوا تھا،." اس وقت میں نے سوچا کہ مرنا ہی بہتر ہے، " جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ یہ سب کچھ اس کے لئے کتنا مشکل تھا.

وہ کہتی تھی جیسے ہی وہ پندرہ سال کی ہو جائے گی تو اس کے پاؤں کا آپریشن ہو جانا چاہیئے- سینئر ہائی اسکول میں موسم گرما کی چھٹیوں کے دوران، اس نے آخرکار آپریشن کروا لیا تھا جسکی وہ ایک طویل عرصے سے خواہش کرتی تھی-  میری بہن حقیقت میں اس کا انتظار کر رہی تھی
جیسا کہ وہ ہمیشہ کہا کرتی تھی کہ وہ ہائی اسکول میں داخلے کے وقت جوتے پہننے کے قابل بننا چاہتی تھی-  تاہم، اس کے لئے اپنے پیروں پر عام جوتے پہننا ممکن نہیں ہو سکا. اگرچہ اس کے پیٹ سے جلد لے کراس کے کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی- بدلی گئی جلد کالی ہونا شروع ہو گئی اور اسکا پاؤں تین سینٹی میٹر چھوٹا رہ گیا-  آپریشن سے پہلے میری بہن نے کہا کہ، "میں معمول کی طرح کھیلوں کے جوتے پہننے کے قابل ہو جاؤں گی،" لیکن اب بھی اے- بم دھماکے کے پینسٹھ سال کے بعد ، وہ عام جوتے نہیں پہن سکتی-

چونکہ اس کے پاؤں کے اگلے حصے پر دباؤ پڑتا اور تکلیف شروع ہو جاتی اس نے کھیلوں کے جوتوں کے اگلے حصے میں سوراخ کر کے استعمال کیا لیکن پھر اسکا پاؤں سوراخ سے رگڑ کھاتا یہاں تک کہ زخم بن جاتے-  قریبا کبھی کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب اسکے پاؤں سے خون نہ بہا ہو-  اس سوچ کے ساتھ کہ  دوسرے لوگوں اسکے خون آلود جوتے دیکھ کر خود کو غیر آرام دہ محسوس کرتے ہیں ، وہ ہميشہ ٹوتھ پيسٹ استعمال کرتے ہوئے خون کے نشان کو پینٹ کرتی-

جب میری بہن جوہری بم کے حملے میں زندہ بچ جانے والوں کے ہسپتال میں داخل ہوئی، اسکی ملاقات ڈاکٹرتومن ھارادا سے ہوئی اور اس نے میری بہن سے کہا کہ، " اگر تم کسی چیز کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہو تو بالکل نہ  ہچکچانا." جب اس نے سینئر ہائی اسکول پاس کیا، اسنے ڈاکٹر ھارادا سے بات کی جس نے اسے ایک جاپانی وزیر، جو لاس اینجلس میں رہتے تھے، سے متعارف کرایا. جیسا کہ ہمارے والد میری بہن کے سینئر ہائی اسکول میں داخل ہونے  سے پہلے وفات پا چکے تھے، اس وقت ہمارے خاندان میں پیسہ بہت کم تھا- سینئر ہائی اسکول کے ایک استاد نے میری بہن کو ایک پارٹ ٹائم نوکری کے لئے متعارف کروایا ، جہاں وہ محنت سے کام کرتی رہی، یہاں تک کہ بیس سال کی عمر تک اس نے امریکہ تک جانے کی یک طرفہ ٹکٹ کے لئے پیسے جمع کر لئے اور امریکہ کہ لئے روانہ ہو گئی-

وہاں وزیر نے اس کا خیال رکھا اور وہ ایک لانڈری میں کام دھونڈنے میں کامیاب ہو گئی جسے سے اسکے روزمرہ اخراجات پورے ہونے لگے-   میرا خیال ہے کہ اس نے کچھ برا وقت دیکھا مگر وہ ڈٹی رہی اور ابھی تک لاس اینجلس میں رہ رہی ہے- اگرچہ اسک خیال تھا کہ وہ کبھی بھی عام طریقے سے شادی نہ کر سکے گی، اس نے امریکہ میں رہنے والے ایک جاپانی سے شادی کرلی، اور انہیں تین بچوں سے نوازا گیا-
 
اوساکا میں ہونے والا واقعہ
میری بہن کے آپریشن کے ایک ہفتے کے بعد میں اوساکا میں رہنے والی ایک دوست سے ملنے گئی- میری بہن نے مجھ سے کہا، "میری طبیعت اب مستحکم ہے چناچہ تم اوساکا جاؤ-

میں ایک لوکل ٹرین میں سوار ہوئی اور اور شام کو اوساکا پہنچی، چونکہ مجھے اپنی دوست کے گھر کا راستہ معلوم نہ تھا میں ایک پولیس باکس پرراستہ پوچھنے کے لئے رکی- اگرچہ وہ ایک نوجوان پولیس افسر تھا وہ بہت مہربان تھا اور جب میں گھر ڈھونڈ رہی تھی وہ تقریبا ایک گھنٹے تک میرے ساتھ رہا - جب میں اپنی دوست کے گھر پہنچی، میں نے پولیس افسر سے کہا  تمہارا بہت بہت شکریہ تم نے میری بہت مدد کی- اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں کہاں سے ہوں- میں نے اسے بتایا کہ میرا تعلق ہیروشیما سے ہے- وہ اچانک ایک قدم پیچھے ہٹا اور کہا ہیروشیما جہاں جوہری بم گرا تھا- میں نےکہا "ہاں" جس کےجواب میں اس نے کہا، ہیروشیما سے ایک عورت یہ میرے لئے ناخوشگوار ہے۔  ہیروشیما سے ایک عورت جو جوہری بم سے متاثر ہے- اس نےیہ اسطرح کہا جیسے اسے مجھ سے کوئی بیماری لگ جائے گی- اسوقت تک میں نے جوہری حملے سے متاثرہ ہونے کے بارے میں نہیں سوچا تھا چناچہ یہ واقعہ میرے لئے حیران کن تھا-

میں نے اس واقعے کے بارے میں اپنی بہن کو نہیں بتایا، میں نے اس بارے میں اپنی اوساکا والی دوست سے بات کی مگر اس نے مجھ سے کہا "تمہیں اس بارے میں اپنی بہن سے بات نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ وہ اسے سن کر برا محسوس کرے گی"۔ اسکے بعد میں نے کھی کسی کو نہیں بتایا کہ میں ہیروشیما سے ہوں-
 
کپڑے کی دوکان میں پیش آنے والا واقعہ
یہ واقعہ کئی دہائیاں پرانا ہے جب میں کپڑے کی دوکان پر ایک گاہک کی مدد کر رہی تھی- ایک آدمی جسے میں قطعی نہیں جانتی تھی، نے اچانک میری بہن کا نام لے کر کہا کہ کیا میں اسکی بڑی بہن ہوں- ہاں یہ سچ ہے، مگر تم اسے کیسے جانتے ہو- وہ آدمی فورو اے میں رہتا تھا، اور اسوقت میری بہن کے متعلق افواہیں اتنی دور تک پہنچ چکی تھیں-

اس واقعے ، جو کچھ اوساکا میں پیش آیا اور دوسرے واقعات کی وجہ سے، میں اپنی بہن کے امریکہ جانے کے حق میں تھی- میں نے سوچا کہ وہ بے عزتی  اور جاپان میں ہونے والی توہین سے جان چھڑانا چاہتی ہے، اور ایسی جگہ چلی جاتی ہے جہاں اسے کوئی نہ جانتا ہو،  تو شاید وہ خوش رہ سکے-
 
امن کی خواہش
میرا خیال ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے اے- بم کا حقیقی طور پر تجربہ نہیں کیا ہے، متاثرین کے درد کو نہیں سمجھ سکتے- اپنی ہی انگلیوں کو کاٹنےسے واقعی درد ہوتا ہے مگر جب کسی اور کی انگلیاں کاٹی جائیں تو اسکے درد کا تصور نہیں کیا جاسکتا – اسی وجہ سے میرا خیال ہے کہ اے- بم کے تجربے کا تصور کرنا واقعی مشکل ہے-
جنگ نے ہمارے دلوں کی گہرائی تک زخم لگائے ہیں- نہ صرف بیرونی زخم بلکہ بہت سے دوسرے زخم بھی جو باقی رہیں گے حتٰی کہ کئی دھائیوں کے بعد بھی یہ زخم دکھتے ہیں- میری بہن جنگ یا اے- بم کے متعلق بات کرنے سے نفرت کرتی ہے۔ بچپن سے ہی جب ہم جنگ کے متعلق بات کرتے تو وہ وہاں سے چلی جاتی- امریکہ جانے کے بعد وہ ہمیشہ اپنے زخم چھپانے کے لئے موٹی سی اسٹاکنگ پہنتی ہے اور کبھی بھی دوبارہ اے – بم کے متعلق بات نہیں کرتی-
جنگ کا مکمل طور پر خاتمہ ہو جانا چاہیئے-
 
 

جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ اس ویب سائٹ پر موجود تصاویر اور مضامین کی غیر مجاز نقل کرنے کی سختی سے ممانعت ہے۔
ہوم پر واپس لوٹیںTop of page
Copyright(c) Hiroshima National Peace Memorial Hall for the Atomic Bomb Victims
Copyright(c) Nagasaki National Peace Memorial Hall for the Atomic Bomb Victims
جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ اس ویب سائٹ پر موجود تصاویر اور مضامین کی غیر مجاز نقل کرنے کی سختی سے ممانعت ہے۔
初めての方へ個人情報保護方針
日本語 英語 ハングル語 中国語 その他の言語