国立広島・長崎原爆死没者追悼平和祈念館 平和情報ネットワーク GLOBAL NETWORK JapaneaseEnglish
 
Select a language / اردو (Urdu・ウルドゥ語) / Memoirs (ایٹمی بم کے متاثرین کی یادداشتیں پڑھیں)
 
میں نے جہنم دیکھی 
کووابارا کیمیکو(KUWABARA Kimiko) 
جنس خاتون  بمباری کے وقت عمر 17 
تحریر کا سال 2011 
بمباری کے وقت محل وقوع ہیروشیما 
Hall site ہیروشیما قومی امن یادگاری ہال برائے متاثرین ایٹمی بمباری 
اے- بم سے پہلے کی زندگی
اسوقت میری عمر سترہ سال تھی اور میں اپنی ماں اور بڑی بہن کےساتھ میساسا ہون ماچی سان چومے {موجودہ نشی کُو} ہیروشیما شہر میں رہ رہی تھی۔ میرے والد وفات پا چکے تھے اور اگرچہ میرے تین بڑے بھائی تھے، سب سے بڑے بھائی کی شادی ہو چکی تھی اور وہ علیحدہ ہو چکے تھے، جبکہ دوسرے دونوں بھائیوں کو جنگ کے لئے بلالیا گیا تھا اوروہ یاما گُوچی پریفیکیچر میں تھے۔

میں ہیروشیما سینٹرل براڈ کاسٹ مرکز کے شعبہ جنرل افئیرز میں کام کرتی تھی۔ یہ مرکز کامی ناگارے کاوا چو {موجودہ نوبوری چو، ناکا کُو} میں واقع تھا اور اردگرد کا علاقہ خالی اور گرے ہوئے گھروں کی وجہ سے ایک کھلے ہوئے پلازے کی شکل میں تبدیل ہو چکا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ مرکز فوج سے متعلقّہ مواد کافی ذیادہ نشر کرتا تھا اور اسی لئے کھڑکیوں کو فضائی حملے سے بچائو کے لئے مظبوط بنایا گیا تھا۔
 
چھ اگست
اس دن کی صبح ہوائی حملے کا الرٹ جاری کیا گیا تھا ، اس لئے میں کچھ دیرتک گھر سے نہ نکل سکی اور کام پر جانے کے لیے دیر ہو چکی تھی. پھر صبح ہوائی حملے کا الرٹ واپس لے لیا گیا اور میں آٹھ بجے کے قریب دفتر پہنچی-  ہمیشہ کی طرح میں نے اپنے  ساتھی کارکنان کے ساتھ مل کر دفتر کو صاف کرنا شروع کر دیا، جیسا کہ ہماری ڈیوٹی لگائی گئی تھی-  جب میں اپنے تفویض کردہ کمرے، اسٹیشن مینیجر کے دفتر میں داخل ہوئی، میں نے آنگن میں ایک خاتون کو کہتے سنا کہ باہر ایک بی- انّتیس طیارہ پرواز کر رہا ہے۔ "میری دلچسپی بڑھی اور ابھی مِں کھڑکی کی طرف جا رہی تھی کہ اچانک کھڑکی کے باہر سے ایک شاندار جھماکا ہوا۔  جھماکا سرخ رنگ کا تھا اور اسی طرح کا تھا جیسا کہ ماچس کو جلاتے وقت ہوتا ہے مگر یہ اسکی نسبت بہت شدید تھا۔ میں نے فوری طور پر دونوں ہاتھوں سے اپنی آنکھوں اور کانوں کو ڈھانپ لیا اور نیچے بیٹھ گئی-میں نے اسلئے کیا کہ  اسوقت ہمیں سکھایا گیا تھا کہ بمباری کے وقت ہم ایسا کریں۔ اندھیرے میں،میں اپنے آپ کو بےوزن محسوس کر رہی تھی اور یہ کیفیت میں اپنے پورے جسم میں محسوس کررہی تھی۔ یہ نہیں کہ یہ تکلیف دہ تھا بلکہ یہ ایک ایسا عجیب احساس تھا کہ جیسے میں ضرور مرنے لگی  ہوں۔  میں نے اُس وقت غور نہیں کیا تھا لیکن دھماکہ نے شیشے کے اتنے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر دیے تھے جو میرے چہرے اور بائیں بازو میں پھنس گئے تھےاور میراجسم خون میں لت پت ہو گیا تھا۔ ابھی تک شیشے کی کرچیاں میرے دائیں گال میں پیوست ہیں۔

کچھ دیر بعد میں ساکت رہی اور باہر دالان سے آنے والی خفیف آوازوں کو سننے لگی۔ کمرہ بالکل کالا سیاہ تھا اور مجھے کچھ نظر نہیں آ رھا تھا۔ بہر حال، میں نے سوچا کہ وہاں سے باہر نکلا جائے، تو میں نے دالان سے آنے والی  آوازوں کے منبع کی طرف حرکت کرنے کی کوشش کی اور ایک آدمی کی پشت سے جا ٹکرائی۔ میں نے اسکی بیلٹ کو سختی سے پکڑ لیا اور اسکے پیچھے پیچھے چلنے لگی یہاں تک کہ  کہ ہم باہر نکلنے کے راستے کے قریب پہنچ گئے۔ لوگ باہر نکلنے کے راستے کے قریب جمع تھے جہاں ہم نے بھاری بھرکم دروازہ کھولا اور باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ باہر طلوعِ فجر کی طرح کا اندھیرا تھا اور دھماکے سے اڑنے والی ہر طرح کی چیزیں نیچے گر رہیں تھیں۔ اسٹیشن سے باہر نکلنے والے لوگوں کو دیکھا تو ان کے چہرے کالے سیاہ تھے، ان کے بال اڑچکے تھے، وہ خون  سے لت پت تھے اور انکے کپڑے چیتھڑوں کی طرح لٹک رہے تھے۔

ہم نے سوچا کہ اسٹیشن کو ہدف بنایا گیا ہے اور بمباری کی وجہ سے بری طرح تباہ و برباد ہو گیا ہے۔  قریب ہی چُوگوکُو اخبار کا دفتر تھا جہاں اسٹیشن سبسکریپشن کا ایک ذیلی آفس تھا ، لہذا میں جنرل امور کے سیکشن  کی چند خواتین کے ساتھ  دالان سے نکل کر اسطرف چل پڑی. اسوقت مجھے پہلی دفعہ احساس ہواکہ اسٹیشن واحد عمارت نہیں تھی جسے نقصان پہنچاتھا – اردگر کی تمام عمارتیں مکمل طور پر منہدم ہو چکی  تھیں اور ادھر اُدھر آگ بھڑک رہی تھی۔ چُوگوکُو اخبار کی عمارت میں واقع ہمارے ذیلی دفتر کی پانچویں اور چھٹی منزل کی کھڑکیوں سے آگ کے بڑے بڑے شعلے باہر نکل رہے تھے۔   اسی وجہ سے ہم  شُکّے ای باغ کی طرف چلے گئے جو اسٹیشن کے قریب تھا . جُوں جُوں شعلے قریب آتےتومیں گھروں کے ملبے کے نیچے دبے ہوئے لوگوں اور خاندان کے کسی رکن کی تلاش میں مصروف لوگوں کی کراہیں سن سکتی تھی۔ اسوقت مجھے خود پناہ کی تلاش تھی چناچہ میں ان کی مدد کے لئے کچھ نہ کر سکی۔ 

لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد شُکّے ای باغ میں پناہ لئے ہوئے تھی. ہم نے پارک میں تالاب پر بنے ہوئے پل کو عبور کیا اور دریا کے کنارے پر پہنچ گئے۔  پارک میں درختوں کو آگ لگ گئی اورآگ کے شعلے آہستہ آہستہ دریا کے کنارے پر جہاں ہم پناہ لئے ہوئے تھے پہنچنے لگے، یہاں تک کہ  آخرمیں  ایک لمبا دیودار کا درخت بھی بھیانک آواز کے ساتھ جل اّٹھا۔ ہم سینے تک دریا کے پانی میں ڈوبے ہوئے اردگر دیکھ رہے تھے کہ دریا کے دوسرے کنارے پر واقع اوہسُوگا-چو بھی جل اّٹھا اور آگ کے شعلے ہم پر گرنے لگے- ہمارے دونوں طرف آگ کی وجہ سے گرمی کی شدت بڑھنے لگی اور اسی وجہ سے ہم شام تک وہاں رکے رہے، کبھی ہم دریا کے اندر چلے جاتے اور کبھی باہر نکل آتے.

دریا کے کنارے پر اتنے لوگ جمع ہو رہے تھے کہ ہمارے لئے بیٹھنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ آرمی کا کیمپ بھی قریب ہی تھا چناچہ بہت سے فوجی بھی وہاں جمع تھے۔ چونکہ انہوں نے سروں پر ٹوپیاں لے رکھی تھیں انکے سروں پرپلیٹ کی شکل میں بال باقی تھے جبکہ انکے بدن بری طرح جھلسے ہوئے تھے اور وہ درد سے بری طرح کراہ رہے تھے۔ وہاں ایک عورت اپنے بچے کو اٹھائے خاموشی سے کھڑی تھی اسکے اوپری بالائی جسم  کے کپڑے چیتھڑوں میں تبدیل ہو چکے تھے اور میرے خیال کے مطابق اسکا بچہ شاید مر چکا تھا۔

جھلسے ہوئے لوگوں کی آوازیں مسلسل آرہیں تھیں "ہمیں پانی دو، ہمیں پانی دو" جبکہ کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ تمہیں پانی نہیں پینا چاہیئے۔ وہاں بہت سے لوگ جو بری طرح جھلسے ہوئے تھے اور درد انکی برداشت سے باہر تھا دریا میں کود گئے۔ زیادہ تر لوگ جو دریا میں کودے زندہ  واپس آ نہیں پائے بلکہ دریا کی موجیں انکو بہا کر لے گئیں۔ دریا کے اوپری حصے سے لاشیں بہہ کر آ رہی تھیں اور دریا چوڑائی کے رخ لاشوں سے بھرا ہوا تھا۔ . یہاں تک کہ جب ہم دریا میں تھے، لاشیں ہماری طرف بہہ کر آ رہی تھیں  تو میں ان کو ہاتھ سے دھکادے کر دور کرتی رہی تا کہ وہ دریا میں بہتی رہیں- اس وقت مجھے کوئی ڈر محسوس نہیں ہو رہا  تھا کیونکہ میں بہت پریشان حال تھی.اسوقت میں  جہنم کی کسی تصویر سےبھی زیادہ دکھی منظر کا مشاہدہ کر رہی تھی.

آگ اتنی سنگین تھی کہ ہم کہیں بھی منتقل نہیں ہوسکتے تھے، چناچہ ہم نے سارا دن شُکّے ای باغ میں دریا کے کنارے پر گزارا۔  تقریبا غروب آفتاب کے وقت ایک چھوٹی سی امدادی کشتی اسٹیشن کے ملازمین کو تلاش کرنے کے لئے آئی. اسٹیشن کے عملے نے مشرقی ڈرل گراؤنڈ میں امدادی اسٹیشن جانے کا فیصلہ کیا اور چھوٹی کشتی  ہمیں دریا کے دوسرےکنارےپر ریتلے ساحل پر لے آئی. میں اپنی ماں کے بارے میں فکر مند تھی جو گھر پر اکیلی تھی  تو میں نے ان سے کہا کہ میں امدادی اسٹیشن جائے بغیر گھر جانا چاہتی ہوں. تو ایک ساتھی کارکن نے کہا کہ، " مضحکہ خیز بات نہ کرو شہر میں واپس جانا بہت خطرناک ہے." اورزبردستی مجھے روک لیا. چونکہ میرا گھر ہیروشیما شہر کے مغربی حصے میساسا ہون ماچی میں تھا مجھے شہر کے مرکزسے گزرنا پڑنا تھا جو شعلوں میں گھرا ہوا  تھا ۔  ہر کوئی میرے وہاں جانے کی مخالفت کر رہا تھا چناچہ میں ہچکچاتے ہوئے ان کے ساتھ چلتی رہی مگر جیسے ہی مجھے ایک موقع ملا  میں ان سے علیحدہ ہو گئی۔ ، میں  نے لوگوں کی آوازیں سنیں جنہوں نے میرے علیحدہ ہونے کو محسوس کیا تھا  لیکن میں نے صرف اتنا کہا، "میں معزرت خواہ  ہوں،" اور اپنے گھر کی طرف چل پڑی۔
 
گھر کی طرف سڑک
اپنے ساتھیوں کو چھوڑنے کے بعد، میں اس جگہ پہنچی جہاں توکیوا پل  کیوباشی دریا کو عبور کر رہا تھا. زخمیوں کے ٹھٹھ پل کے مغرب کی طرف سے مسلسل آ رہے تھے جبکہ کوئی بھی مخالف سمت میں نہیں جا رہا تھا۔  پھر میری  ملاقات دو ریلوے کارکنوں سے ہوئی جو پل کو پار کرنا چاہتے تھے- وہ یوکوگاوا اسٹیشن جا رہے تھے،  میں نے ان سے درخواست کی کہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے لیں مگرانہوں نےیہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ "ہم نہیں جانتے کہ ہم وہاں پہنچ سکتے ہیں یا نہیں ہم آپ کو ساتھ نہیں لے جا سکتے' تمہیں ایک امدادی اسٹیشن جانا چاہیئے." تاہم میں نے ہمت نہیں ہاری اور صرف چار یا پانچ میٹر کا فاصلہ رکھتے ہوئے خفیہ طور پر ان کے پیچھے چلتی رہی. جوں جوں ہم آگ کے درمیان سے گزرتے رہے ، وہ کبھی کبھی پلٹ کر مجھے دیکھتے مگر اسوقت میں رک جاتی اور پھر  ان کی پیروی کر نے لگتی- جب میں مسلسل ان کا پیچھا کرتی رہی تو آخر وہ مان گئے اور کہا ، "ٹھیک ہے، تم ہمارا پیچھا کر سکتی ہوں، ہمارے ساتھ ساتھ چلتی رہو" - انہوں نے راستے میں خطرناک مقامات کی نشاندہی کی. شعلوں سے بچ کر چلتے ہوئے،  ہم پوسٹل سروسز ایجنسی کے ہسپتال  کے سامنے سے گزرے اور میساسا پل پہنچے. پل کے دونوں اطراف پر بیٹھے ہوئے زخمی فوجیوں کی قطاریں تھیں اور چلنے کے لئے کوئی جگہ نہ تھی۔ . وہ شاید قریب ہی چُوگوکُوکے تعینات یونٹ ایک سو چارکے فوجی تھے اور وہ سب درد سے کراہ رہے تھے۔

ہم نے کسی نہ کسی طرح زخمی فوجیوں پر پیر رکھے بغیر پل پار کر لیا اورریلوے پٹریوں پر جا پہنچے – ہم پٹریوں کے ساتھ ساتھ چلتے رہے یہاں تک کہ ہم یوکوگاوا اسٹیشن پہنچ گئے. پھر میں ان سے علیحدہ ہو گئی ریلوے ورکرز ، جو مجھے یاد ہیں،  نے مجھ سے کہا، "اپنے گھر کے راستے پر ہوشیار رہنا."
 
اپنی ماں سے ملاپ
میں اپنے گھر کی طرف چلتی رہی-  اگرچہ  ہر طرف پہلے ہی اندھیرا تھا سڑک کے دونوں اطراف   پر ابھی بھی آگ تھی- جہاں آگ شدید تھی میں وہاں سے بھاگ کر گزری- گھر پہنچنے کے لئے میں میساسا سے ہوتے یوکوگاوا سے گزری اور شمال کی طرف جانے والی سڑک پر مڑی یہاں تک کہ میں گھر پہنچ گئی. اگرچہ میرا گھر پہلے ہی جل چکا تھا، میں نے اپنی ماں کو قریبی سڑک پر کھڑے ہوئے دیکھا۔ میں اسے زندہ دیکھ کر اتنی خوش تھی کہ میں نے اسے گلے لگایا اور ہم دونوں نے رونا شروع کر دیا.
میری ماں ہمارے گھر کی دوسری منزل پر آئینے کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی جب اے- بم پھٹا-  اگرچہ دوسری منزل اندر کی طرف گر گئی تھی ، میری ماں ایک کونے کے کمرے میں تھی، اور یہ کمرہ کسی نہ کسی طرح گرنے سے بچ گیا- چوں کہ  سیڑھیاں استعمال کرنا ناممکن ہو گیا تھا، کسی نے اس کے لئے ایک سیڑھی لگائی اور وہ وہاں سے نیچے اترنے کے قابل ہو گئی-

گھر صبح تک گرا رہا اور جوں جوں آگ آہستہ آہستہ قریب آتی رہی، دوپہر میں گھر کو آگ نےآخرکار پکڑ لیا. گھر میں آگ لگنےسے پہلے میری ماں  گھر سے صرف  لحاف ہی نکال سکی جو اس نے کسی طرح گھر سے باہر پھینکے مگرانہیں وہاں سے فرار ہوتے ہوئے لوگوں نے پکڑ کر سروں پر ڈال لیا اور بھاگ گئے۔ ہوائی حملے سے  پناہ لینے کے لئے ہمارے گھر میں ایک خندق کھودی گئی تھی جس میں ہم نے  مختلف طرح کی  قیمتی اشیاء مثلا کیمونو {جاپانی لباس} جمع کیں تھیں لیکن شعلے وہاں بھی پہنچ گئے اور انہوں نے ان چیزوں کو جلا دیا. میری ماں آگ بھجانے کے لئے گھر کے سامنے واقع ندی سے پانی کی بالٹیاں ڈالتی رہی اور اگرچہ وہ پناہ گاہ  کو دوبارہ کھودنے میں کامیاب ہو گئی ذیادہ تر چیزیں جل چکی تھیں۔ اگرچہ ہمارے پڑوسیوں نےمیتاکی کی طرف فرار ہونے کی  سفارش کی ، وہ میرے اور  میری بہن کے بارے میں فکر مند تھے اور گھی کے جلنے کے دوران ، وہ صرف سڑک کے پار ایک کھیت میں پناہ کے لئے گئی اور میرا اور  میری بہن کی گھر واپسی کا انتظار کرتی رہی۔ 

اس رات، میں نے اور میری والدہ نے اس میدان کے کے درمیان میں ڈیرہ لگایا. پوری رات لوگ ہمارے گھر کے سامنے سے گزرتے رہے اگرچہ امداد فراہم کرنے وال لوگ بھی وہاں چکر لگاتے رہے۔  میں صرف اس منظر کو گھورتی رہی اور صرف یہ سوچتی رہی کہ میرا کیا بنے گا۔  آدھی رات کو کچھ امدادی کارکنوں نے ہمیں  کچھ چاول کی گیندیں کھانے کے لئے دیں اور جب میں سونے جارہی تھی سورج طلوع ہو رہا تھا۔
 
اپنی بہن کی تلاش
اگرچہ لوگوں کا ہجوم سات اگست کو دن بھر ختم نہیں ہوا، میری بہن ایمیکو گھر واپس نہیں آئی. میری ماں میری بہن کے بارے میں فکر مند تھی، اور پکارتے ہوئے کہہ رہی تھی "اسے کیا ہو گیا ہے؟ ہو سکتا ہے کہ وہ ہلاک ہو گئی ہو ..."- میں اپنی ماں کی یہ حالت  دیکھ کر برداشت نہ کر سکی اور ، اپنی بہن کی ایک سہیلی کے ساتھ جو پڑوس میں رہتی تھی اپنی بہن کو  تلاش کرنے کے لئے چلی گئی-. ایک بار پھر، میں نے براہ راست جہنم کے مناظر کا مشاہدہ کیا.

میری بہن شیمو ناکا چو میں واقع ہیروشیما سینٹرل ٹیلیفون بیورو میں  {موجودہ ، فوکُورو ماچی، ناکا کُو} میں کام کرتی تھی. میں یوکوگاوا سے توکائی چی ماچی {موجودہ ، توکائی چی ماچی  ایک چو مے ناکا کُو} کے زریعے گئی ، اور ٹرام کے راستے کے ساتھ ساتھ چلی-  اگرچہ گلی کافی کھلی تھی لیکن جلے ہوئے ملبے کو صاف کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں کیا گیا تھا، تو میں بمشکل گلی سے گزرنے کے قابل تھی. شہر لاشوں سے بھرا ہوا تھا، تو میں احتیاط کے ساتھ ان پر قدم رکھے بغیر چلتی رہی. تِیرا ماچی کے قریب {موجودہ ناکا کُو}، میں نے ایک مردہ گھوڑے کو دیکھا جو بری طرح پھولا ہوا تھا. توکائی چی ماچی کے ارد گرد، ایک شخص کھڑا تھا جس کے دونوں ہاتھ پھیلے ہوئے تھے اور جسم جل کر سیاہ ہوچکا تھا. مجھے بہت عجیب لگا لیکن جب میں نے اسے قریب سے دیکھا، میں نے محسوس کیا کہ وہ اسی طرح کھڑے کھڑے مر گیا تھا. یہاں اور وہاں، میں نے دیکھا کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کےسر پانی کی ٹینکیوں میں تھے اور ان کی لاشیں ڈھیروں کی شکل میں جمع تھیں۔  سڑکوں کے کنارے لاشوں کے ساتھ  بھرے ہوئے  تھے جبکہ ان کے درمیان لوگ اب بھی زندہ تھے اور میں ان کو کراہتے ہوئے سن رہی تھی- کچھ لوگ "پانی پانی ،"  کہہ رہے تھے -  وہاں ایک بھی صحت مند شخص نہیں تھا. سب کا لباس جلا ہوا تھا، اور ان کے جسم بھی جلے اور سوجے ہوئے تھے اور سیاہ کوئلے سے بنی ہوئی گُڑیوں کی طرح دکھائی دیتے تھے- میں نے سوچا کہ اگر میری بہن بھی  گر گئی ہے اور  اس ڈھیر میں کہیں پڑی ہے ، تو میں اسے تلاش کرنے کے قابل نہیں ہو نگی. لاشوں پر قدم رکھتےہوئے میں نے آاوئی پل کو پار کیا اور کامیا-چو {موجودہ ، ناکا کُو} کی طرف چلی گئی مگر ہم ذیادہ آگے تک نہ جا سکے لہندا ہم واپس میساسا آگئے۔ ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے سوچا کہ میری بہن زندہ نہیں ہو گی۔

خوش قسمتی سے، میری بہن اے-بم دھماکے کے  ایک ہفتے کے بعد گھر واپس آ گئی - اگرچہ وہ ٹیلی فون بیورو پربم دھماکے کی وجہ سے شدید زخمی تھی وہ حِجی یاما پہاڑی پر چلی گئی اور اسے کائی تائی چی-چو آکی گُن {موجودہ ، کائیتا-چو} میں واقع پناہ گاہ میں لے جایا گیا. اس نے ایک ہفتہ وہاں گزارا جب اس نے سنا کہ ایک ٹرک ریلیف فراہم کرنے کے لئے ہیروشیما شہر جا رہا ہے تو اس نے درخواست کی کہ اسے بھی ساتھ لے چلیں-  اگرچہ انہوں نےانکار کیا اور کہا کہ ایک شدید زخمی شخص کو ٹرک میں سوار نہیں ہونا چاہئے، اس نے گھر جانے کا پکا ارادہ کر رکھا تھا اور موقع ملنے پر وہ چپکے سے ٹرک کے پچھلے حصے میں کود گئی اور ٹرک اسے توکائی چی ماچی تک لے آیا- میری بہن کے کپڑےچیتھڑوں میں تبدیل ہو چکے تھے جو توکائی چی ماچی سے لے کر تمام راستے الجھتے رہے -  وہ خون سے بھری ہوئی تھی اور دونوں  پاؤں میں  مختلف جوتے پہنے ہوئے تھی-  اگر آپ کو معلوم نہ ہو کہ  اسکے ساتھ کیا ہوا تھا، تو آپ سوچیں گے کہ وہ ایک ہوشمند انسان نہیں ہے- چونکہ ہمارا گھر جل چکا تھا، میری ماں کی ایک دوست نے اپنے گھر کےایک  کونے میں میری بہن کو سونے دیا.اسکے فورا بعد اسے بستر تک محدود کر دیا گیا اور وہ زندگی اور موت کے درمیان معلق رہی.
 
اپنی بہن کی دیکھ بھال
مختلف قسم کے شیشے میری بہن کی پیٹھ میں گھس گئے تھے، اور اس کے ہاتھ کا گوشت پھٹ چکا تھااور اسطرح پھٹا ہوا تھا جسطرح ایک انار کھلا ہوا ہو- میں  ہر روز اسکی پیٹھ سے شیشے کے ٹکڑے نکالنے کے لئے سوئی استعمال کرتی تھی لیکن اسکے زخموں میں کیڑے پڑ گئے-  اس عورت کی بیٹی،  جس کے گھر میں میری بہن رہ رہی تھی، پہلے ہی اے- بم دھماکے میں ہلاک ہو چکی تھی-  ہمیں فکر تھی کہ ہم اس عورت کو مزید تنگ کر رہے ہیں-  میرے سب سے بڑے بھائی ہمارے گھر کے جلے ہوئے کھنڈرات پر واپس آئے اور انہوں نے جلے ہوئے گھر پر ایک چھوٹی سی چھونپڑی بنادی جو ہمیں بارش سے بچا سکتی تھی  اور ہم وہاں منتقل ہو گئے جہاں  میری بہن کی دیکھ بھال جاری رہی- میری بہن جو بستر پر پڑی ہوئی تھی، کو امدادی اسٹیشن پر نہیں لے جایا سکتا تھا تو کسی نے ہمیں ایک چھوٹی سی مرہم دی  لیکن یہ مکمل طور پر علاج  کے لئے کافی نہیں تھی. اُس کے بال مکمل طور پر گر چکے تھے اور اسے خون کی الٹیاں آتی تھیں جسکی وجہ سے  ، ہمیں کئی بار لگا کہ وہ مرنے والی ہے. میری والدہ ہر روز پہاڑوں پر دوکو دامی { ایک قسم کی جاپانی بوٹی } کے پتے چننے جاتی ان پتوں کو  تازہ سبز حالت میں  ابالتی اور مجھے اور میری بہن کو پینے کے لئے دیتی-  اس سبز پتی کی چائےسے سخت بدبو آتی تھی لیکن میری ماں نے کہا کہ یہ ایک دوا کے طور پر کام کرے گی. شاید اس چائے نے اثر دکھایا اور  کچھ تین ماہ کے بعد، میری بہن جو پہلے کھڑی نہیں ہو سکتی تھی اسکی حالت میں بہتری آنا شروع ہو گئی اور اس کے بعد وہ کام کاج پر واپس چلی گئی. اس نے ایک سکارف یا ٹوپی میں اپنا سر اسوقت تک چھپائے رکھا جب تک اسکے بال دوبارہ واپس نہیں آگئے- اسکے  زخموں کے نشان باقی رہ گئے اور اسنے کبھی بھی بغیر بازو کے کپڑے نہیں پہنے-  آج بھی اس کے بازو کے زخم نمایاں ہیں.
 
جنگ کے بعد کی زندگی
مجھے تو کسی سے جنگ کے اختتام کے بارے میں پتہ چلا تھا - اگرچہ میں نے سنا ہے کہ جنگ ختم ہو چکی ہے لیکن میں بالکل بھی نہیں سمجھ سکی  . جب میں بچی تھی ، ہمیں پڑھایا گیا تھا کہ  جاپان کبھی بھی جنگ نہیں ہارے گا اور مجھےاسپر مکمل یقین تھا-  جب میں اسٹیشن پر کام کرتی تھی تو میں نے ہمیشہ جیتنے کے متعلّق ہی باتیں سنی تھیں اور کبھی ہار کا لفظ بھی نہیں سنا تھا-. تاہم، جب میں نے سنا کہ ناگاساکی پربھی  اے- بم گرایا جا چکا ہے ، میں نے سوچا کہ اسطرح کے بم حملوں سے بہتر یہی ہے کہ جنگ ختم ہو جائے-

چونکہ کامی ناگارے کاوا چو میں واقع عمارت قابل استعمال نہیں تھی، اسٹیشن آکی گُن  کے فوچو چو میں میں منتقل کردیا گیا. چونکہ مجھے اپنی بہن کی دیکھ بھال کرنی تھی  اور تویوانڈسٹریز لمیٹڈ  کافی دور تھی اور  مجھے ریل کے زریعے کام پر جانا پڑتا تھا،  میں نے یہ افواہیں سنیں تھیں  کہ قابض افواج، جو ابھی آئیں تھیں ، خواتین کے ساتھ برا سلوک کرتیں تھیں  تو میں نے اپنی نوکری چھوڑ دی-  ، اس کے بعد، میں نے ایک قریبی کمپنی میں ایک سال کے لئے کام کیا،اوراسکے بعد میں نے ایک دوسری کمپنی میں کا م کیا جہاں مجھے  میرے ایک سابق استاد نے متعارف کروایا تھا- اسکے بعد میں نے شادی کر لی.

اگرچہ میں چھ اور آٹھ اگست کو ہیروشیما  میں تھی مجھے اے- بم دھماکے سے کبھی بھی کسی بڑی بیماری کا سامنا نہیں کرنا پڑا.اگرچہ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس طرح کی بیماری سے کسی بھی وقت سامنا ہو سکتا ہے،میں نے کبھی بھی بیماری کے بارے میں نہیں سوچا-  اگر میں بیمار ہو جاتی تو میں اس سے نمٹ لیتی- اس سے بھی زیادہ، میں نے ہمیشہ یہ سوچا کہ آئندہ کیا کرنا چاہیئے- 
 
امن کی خواہش
اب تک، میں اے- بم دھماکے کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی تھی. اگرچہ میں اے- بم متاثرین کا  احترام  کرتی ہوں اور ہر سال میں اے- بم متاثرین کے لئے بنائی گئی یادگار پر جا کر دعا کرتی ہوں- میں کبھی بھی شکّے ای باغ میں ، جہاں میں چھ اگست کو بھاگ گئی تھی، میں دوبارہ نہیں گئی-  شکّے ای باغ ایک خوبصورت باغ ہے لیکن اگر میں نے تالاب سے گزرتا ہوا گول پل  دیکھا، تو مجھے وہ خوفناک دن یاد آ جائے گا- اسی لئے میں وہاں نہیں جا سکتی-  اگرمیں اسے یاد کروں تو میں  رونا شروع کردیتی ہوں اور الفاظ میرے گلے میں پھنس جاتے ہیں-

اے- بم کے بہت سے متاثرین مر چکے ہیں  اسلئے  صرف چند لوگ بچے ہیں  جو ابھی بھی اس کے بارے میں بات کر سکتے ہیں. اگرچہ میں بھی بوڑھی ہو رہی ہوں، میں جہنم کے مناظر کے متعلّق بات کرنا چاہتی ہوں جو ابھی بھی مجھے اچھی طرح یاد ہیں ، اور نوجوان لوگوں کے ساتھ مکمل طور پر اپنے تجربات کو بانٹنا چاہتی ہوں اسلئے کہ جوہری ہتھیاروں کا استعمال دوبارہ نہ کیا جائے-  پرائمری اسکول میں پڑھنے والے میرے پوتے کو جنگ اور امن میں دلچسپی ہے اوروہ مجھ سے پوچھنے آتا ہے کہ، دادی ماں، آپ کا اے- بم کا تجربہ کیسا تھا؟ "میں واقعی میں امید کرتی ہوں کہ ہم  ایک  ایسی دنیا تشکیل دے سکتے ہیں جہاں کوئی بھی اس طرح کی مشکلات کا سامنا نہ کرے-
 
 

جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ اس ویب سائٹ پر موجود تصاویر اور مضامین کی غیر مجاز نقل کرنے کی سختی سے ممانعت ہے۔
ہوم پر واپس لوٹیںTop of page
Copyright(c) Hiroshima National Peace Memorial Hall for the Atomic Bomb Victims
Copyright(c) Nagasaki National Peace Memorial Hall for the Atomic Bomb Victims
جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ اس ویب سائٹ پر موجود تصاویر اور مضامین کی غیر مجاز نقل کرنے کی سختی سے ممانعت ہے۔
初めての方へ個人情報保護方針
日本語 英語 ハングル語 中国語 その他の言語